اسمِ وفا کھو جائے تو
دِل ، دُنیا ہو جائے تو
آنکھ میں خواہش کا دہقان
خواب کوئی بو جائے تو
نقش ہے دِل پر داغِ جنوں
وقت اگر دھو جائے تو
جنگل جادو کر ڈالے
شہر ہوا ہو جائے تو
دِل دسواں سیارہ ہے
کوئی وہاں کو جائے تو
بے چینی جاگ اُٹھتی
درد ذرا سو جائے تو
طارقؔ! کوئے وفا سے کہیں
دِل اپنا لو جائے تو
ڈاکٹر طارق ہاشمی نئی اردو غزل میں نئے لفظیات کے قائل ہیں انہوں نے ایسے انگریزی الفاظ جو اردو کا حصہ بن چکے ہیںبڑی خوبصورتی سے غزل کے اندر سموئے ہیں۔
عشق بھی محدود ہے اب کھیل تک
میرا اس کا میل ہے ای میل تک
گھر کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
صحن میں مرجھا چکی ہےبیل تک
کیا کروں اپنی سپہ پر انحصار...