سعید خان

  1. شیزان

    جاگے ہیں بِسرے درد، ہَوا پھر آئی ہے، سعید خان

    جاگے ہیں بِسرے درد، ہَوا پھر آئی ہے جاناں کی گلی سے سرد ہَوا پھر آئی ہے جب گرد و بلا میں گلیوں سے گُلزاروں تک سب منظر ہو گئے زرد، ہَوا پھر آئی ہے کیا مسجد کیا بازار، لہو کا موسم ہے کِس قریہ سے بے درد ہَوا پھر آئی ہے اِک عمر تلک مَیلے سورج کا حَبس رہا جب سُلگ اُٹھا ہر فرد ہَوا پھر آئی ہے...
  2. عمران خان

    حشر کیسا بھی ہو، برپا نہیں دیکھا جاتا۔ سعید خان

    حشر کیسا بھی ہو، برپا نہیں دیکھا جاتا یار اب ہم سے تماشا نہیں دیکھا جاتا ایسے برزخ سے تڑپنا ہی کہیں بہتر تھا دل کومحرومِ تمنا نہیں دیکھا جاتا خوف آتا ہے تو بس خواب کی بے خوفی سے ورنہ اس آنکھ سے کیا کیا نہیں دیکھا جاتا ان کی ہستی کی نمو ہے مری بربادی میں ناصحوں سے مجھے اچھا نہیں دیکھا...
  3. عمران خان

    مری فصیلِ انا میں شگاف کر کے رہے۔ سعید خان

    مری فصیلِ انا میں شگاف کر کے رہے کہ دوست مجھ کو بھی میرے خلاف کر کے رہے یہ معجزہ ہے کہ اپنے دلوں کی وسعت ہے محبتوں میں بھی ہم اختلاف کر کے رہے رکے، تو حسن کا کعبہ تھا اپنے پہلو میں چلے، تو اس کی گلی کا طواف کر کے رہے جنوں میں رنج و ملامت کو رائیگاں نہ سمجھ یہ داغ وہ ہے جو دامن کو صاف کر کے...
Top