غزل
کہاں گئے میرے دِلدار و غمگُسار سے لوگ
وہ دِلبَرانِ زَمِیں، وہ فَلک شِعار سے لوگ
!وہ موسَموں کی صِفَت سب کو باعثِ تسکِیں
وہ مہْر و مَہ کی طرح، سب پہ آشکار سے لوگ
ہر آفتاب سے کِرنیں سَمیٹ لیتے ہیں
ہمارے شہر پہ چھائے ہُوئے غُبار سے لوگ
ہم ایسے سادہ دِلوں کی، کہیں پہ جا ہی نہیں
چہار سمْت...
غزل
شاید ابھی ہے راکھ میں کوئی شرار بھی
کیوں ورنہ اِنتظار بھی ہے، اِضطِرار بھی
دھیان آ گیا تھا، مرگِ دِلِ نامُراد کا
مِلنے کو مِل گیا ہے سُکُوں بھی قرار بھی
اب ڈھونڈنے چلے ہو مُسافر کو، دوستو!
حَدِّ نِگاہ تک، نہ رہا جب غُبار بھی
ہر آستاں پہ ناصِیہ فرسا ہیں آج وہ
جو کل نہ کر سکے تھے...
غزل
مِری زَمِیں پہ جو مَوسم کبھی نہیں آیا
یہی بُہت ہے کہ، اُس پر مجھے یقیں آیا
مَیں خود ہی ہِجْر کا موسم، مَیں خود وِصال کا دِن
مِرے لِیے، مِرا روزِ جزا یہیں آیا
تسلِّیوں سے کہاں بارِ زِندگی اُٹھتا!
یَقِیں تو اپنی وَفاؤں پہ بھی، نہیں آیا
اِن آنسوؤں کا سَفر بھی ہے بادَلوں جیسا
بَرس گیا ہے...
اب آنسوؤں کے دھندلکے میں روشنی دیکھو
ہجومِ مرگ سے آوازِ زندگی کو سنو
سنو کہ تشنہ دہن مالکِ سبیل ہوئے
سنو کہ خاک بسر وارثِ فصیل ہوئے
ردائے چاک نے دستارِ شہ کو تار کیا
تنِ نحیف سے انبوہ جبر ہار گیا
سنو کہ حرص و ہوس، قہر و زہر کا ریلا
غبار و خار و خش و خاک ہی نے تھام لیا
سیاہیاں ہی مقدر ہوں جن...
ترے جنگل کی صندل ہوگئی ہوں
سلگنے سے مکمل ہوگئی ہوں
ذرا پیاسے لبوں کی اے اداسی
مجھے تو دیکھ چھاگل ہوگئی ہوں
بدن نے اوڑھ لی ہے شال اس کی
ملائم ، نرم ، مخمل ہوگئی ہوں
دھنسی جاتی ہے مجھ میں زندگانی
میں اک چشمہ تھی دلدل ہوگئی ہوں
کسی کے عکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینے سے اوجھل ہوگئی ہوں...