کراچی اور دہلی

  1. کاشفی

    سودا باتیں کِدھر گئیں وہ تِری بھولی بھالِیاں؟ - سودا

    غزل (مرزا محمد رفیع دہلوی سودا) باتیں کِدھر گئیں وہ تِری بھولی بھالِیاں؟ دِل لے کے بولتا ہَے، جو اَب تو، یہ بولِیاں ہر بات ہَے لطیفہ و ہر یک سُخن ہَے رمز ہر آن ہَے کِنایہ و ہر دم ٹھٹھولِیاں حَیرت نے، اُس کو بند نہ کرنے دیں پِھر کبھو آنکھیں، جب آرسی نے، تِرے مُنہ پہ کھولِیاں کِس نے کیا...
  2. کاشفی

    رہیئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو - مرزا غالب

    غزل (مرزا غالب مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ) رہیئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہمزباں کوئی نہ ہو بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیئے کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو پڑیئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
  3. کاشفی

    زباں کو اپنی گنہ گار کرنے والا ہوں - سبودھ لال ساقی

    غزل (سبودھ لال ساقی) زباں کو اپنی گنہ گار کرنے والا ہوں خموش رہ کے ہی اظہار کرنے والا ہوں میں کرنے والا ہوں ہر خیرخواہ کو مایوس ابھی میں جرم کا اقرار کرنے والا ہوں چھپانی چاہئے جو بات مجھ کو دنیا سے اسی کا آج میں اظہار کرنے والا ہوں وہ جس کے بعد مجھے کچھ نہیں ڈرائے گا وہ انکشاف سرِ دار کرنے...
  4. کاشفی

    اب عشق رہا نہ وہ جنوں ہے - بسمل سعیدی

    غزل (بسمل سعیدی - 1901-1977 دہلی ہندوستان) اب عشق رہا نہ وہ جنوں ہے طوفان کے بعد کا سکوں ہے احساس کو ضد ہے دردِ دل سے کم ہو تو یہ جانیے فزوں ہے راس آئی ہے عشق کو زبونی جس حال میں دیکھیے زبوں ہے باقی نہ جگر رہا نہ اب دل اشکوں میں ہنوز رنگِ خوں ہے اظہار ہے دردِ دل کا بسمل الہام نہ شاعری فسوں ہے
  5. کاشفی

    سلسلہ ختم ہوا جلنے جلانے والا - اقبال اشہر

    غزل (اقبال اشہر) سلسلہ ختم ہوا جلنے جلانے والا اب کوئی خواب نہیں نیند اُڑانے والا یہ وہ صحرا ہے سمجھائے نہ اگر تو رستہ خاک ہوجائے یہاں خاک اُڑانے والا کیا کرے آنکھ جو پتھرانے کی خواہش نہ کرے خواب ہو جائے اگر خواب دکھانے والا یاد آتا ہے کہ میں خود سے یہیں بچھڑا تھا یہی رستہ ہے ترے شہر کو جانے...
  6. کاشفی

    میر مہدی مجروح قتل کرتا ہے تو کر، خوف کسی کا کیا ہے - میر مہدی مجروح

    غزل (میر مہدی مجروح) قتل کرتا ہے تو کر، خوف کسی کا کیا ہے سر یہ موجود ہے، ہر دم کا تقاضا کیا ہے نزع کے وقت یہ آنکھوں کا اشارا کیا ہے سامنے میرے دھرا ساغرِ صہبا کیا ہے اپنا یوں دُور سے آ آ کے دکھانا جوبن اور پھر پوچھنا مجھ سے کہ تمنّا کیا ہے چشمِ پُر آب مری دیکھ کے ہنس کر بولے یہ تو اک نوح کا...
  7. کاشفی

    میر مہدی مجروح وہ کہاں جلوہء جاں بخش بتانِ دہلی - میر مہدی مجروح

    غزل (میر مہدی مجروح) وہ کہاں جلوہء جاں بخش بتانِ دہلی کیونکہ جنّت پہ کیا جائے گمانِ دہلی ان کا بےوجہ نہیں ٹوٹ کے ہونا برباد ڈھونڈے ہے اپنے مکینوں کو مکانِ دہلی جس کے جھونکے سے صبا طبلہ عطار بنے ہے وہ بادِ سحر عطر فشانِ دہلی مہر زر خاک کو کرتا ہے یہ سچ ہے لیکن اس سے کچھ بڑھ کے ہیں صاحب نظرانِ...
  8. کاشفی

    پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے - اقبال اشہر

    غزل (اقبال اشہر) پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے ایک بادل سے بڑی آس لگا رکھی ہے تیری آنکھوں کی کشش کیسے تجھے سمجھاؤں ان چراغوں نے میری نیند اُڑا رکھی ہے کیوں نہ آجائے مہکنے کا ہُنر لفظوں کو تیری چٹھی جو کتابوں میں چھپا رکھی ہے تیری باتوں کو چھپانا نہیں آتا مجھ سے تونے خوشبو میرے لہجے میں...
  9. کاشفی

    خفا ہے ہم سے بہت آسمان کی خوشبو - اقبال اشہر

    غزل (اقبال اشہر) ڈاکٹر بشیر بدر کی زمین میں خفا ہے ہم سے بہت آسمان کی خوشبو کہاں سے لائیں بلالی اذان کی خوشبو جُدا نہ کیجئے الفاظ کو صداقت سے کشش نہ کھو دے کہیں داستان کی خوشبو اس اعتبار سے کس درجہ مالا مال ہیں ہم ہمیں نصیب ہے اُردو زبان کی خوشبو کہ تم قفس کے نہیں، مصلحت کے قیدی ہو تمہیں نصیب...
  10. کاشفی

    نئے موسموں کی کوئی خوشی، نہ گئی رُتوں کا ملال ہے - اقبال اشہر

    غزل (اقبال اشہر) نئے موسموں کی کوئی خوشی، نہ گئی رُتوں کا ملال ہے تیرے بعد میری تلاش میں کوئی خواب ہے نہ خیال ہے وہ چراغ ہوں کہ جسے ہوا نہ جلا سکی نہ بجھا سکی میری روشنی کے نصیب میں نہ عروج ہے نہ زوال ہے یہ ہے شہرِ جسم وہ شہرِ جاں، نہ یہاں سکوں نہ وہاں سکوں یہاں خوشبوؤں کی تلاش ہے وہاں روشنی...
  11. کاشفی

    ٹھہری ٹھہری سی طبیعت میں روانی آئی - اقبال اشہر

    غزل (اقبال اشہر) ٹھہری ٹھہری سی طبیعت میں روانی آئی آج پھر یاد محبت کی کہانی آئی آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی مدتوں بعد چلا اُن پہ ہمارا جادو مدتوں بعد ہمیں بات بنانی آئی مدتوں بعد پشیماں ہوا دریا ہم سے مدتوں بعد ہمیں پیاس چھپانی آئی مدتوں بعد کھلی...
  12. کاشفی

    یہ جگنوؤں کی قیادت میں چلنے والے لوگ - اقبال اشہر

    غزل (اقبال اشہر) یہ جگنوؤں کی قیادت میں چلنے والے لوگ تھے کل چراغ کی مانند جلنے والے لوگ ہمیں بھی وقت نے پتھر صفت بنا ڈالا ہمیں تھے موم کی صورت پگھلنے والے لوگ ہمیں نے اپنے چراغوں کو پائمال کیا ہمیں ہیں اب کفِ افسوس ملنے والے لوگ سمٹ کے رہ گئے ماضی کی داستانوں تک حدودِ ذات سے آگے نکلنے والے...
  13. کاشفی

    اُس کی خوشبو میری غزلوں میں سمٹ آئی ہے - اقبال اشہر

    غزل (اقبال اشہر) اُس کی خوشبو میری غزلوں میں سمٹ آئی ہے نام کا نام ہے، رسوائی کی رسوائی ہے دل ہے اک اور دوعالم کا تمنائی ہے دوست کا دوست ہے، ہرجائی کا ہرجائی ہے ہجر کی رات ہے اور اُن کے تصوّر کا چراغ بزم کی بزم ہے، تنہائی کی تنہائی ہے کون سے نام سے تعبیر کروں اِس رُت کو پھول مرجھائے ہیں،...
Top