قیصرؔ نہیں غنِیم کا لشکر مِرے خلاف
دراصل ہو گیا ہے مِرا گھر مِرے خلاف
مجھ کو مخالفت کا ہر اِک سُو ہے سامنا
جس دن سے ہو گیا ہے وہ کافِر مِرے خلاف
باہر مِرے خلاف نہیں ہے کوئی مگر
صد حیف ہو گیا مِرا اندر مِرے خلاف
اِس شہر کی زمیں بھی موافق نہیں مِرے
مٹی مِرے خلاف ہے، پتھر مِرے خلاف
اب کون سی...