کلاسیکل غزل

  1. طارق شاہ

    قمرجلال آبادی - " یہ دردِ ہجر اور اُس پر سحر نہیں ہوتی"

    غزلِ قمر جلال آبادی یہ دردِ ہجر اور اُس پر سحر نہیں ہوتی کہیں اُدھر کی تو دنیا اِدھر نہیں ہوتی نہ ہو رہائی قفس سے، اگر نہیں ہوتی نگاہِ شوق تو بے بال و پر نہیں ہوتی ستائے جاؤ نہیں کوئی پوچھنے والا مٹائے جاؤ کسی کو خبر نہیں ہوتی نگاہِ برق عِلاوہ مِرے نشیمن کے چمن کی اور کسی شاخ پر نہیں...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش - نہ پوچھو ہم سے کہ وہ خُرد سال کیا شے ہے

    غزلِ شفیق خلش نہ پُوچھو ہم سے کہ وہ خُرد سال کیا شے ہے کمر کے سامنے جس کی ہِلال کیا شے ہے حَسِین چیزکوئی کیا، جمال کیا شے ہے خدا نے اُس کو بنایا کمال، کیا شے ہے بنایا وہ یَدِ قُدرت نے خاک سے پُتلا خجِل ہوں حُورمقابل غزال کیا شے ہے تمہارے حُسن سے، شاید مِرے تصور کو کبھی خبر ہی نہیں ہو...
  3. طارق شاہ

    داغ گِلے مِلا ہے وہ مستِ شباب برسوں میں

    غزلِ داغ دہلوی گِلے مِلا ہے وہ مستِ شباب برسوں میں ہُوا ہے دل کو سُرورِ شراب برسوں میں خدا کرے کہ مزا نتظار کا نہ مِٹے مِرے سوال کا وہ دیں جواب برسوں میں بچیں گے حضرتِ زاہد کہیں بغیر پئے ہمارے ہاتھ لگے ہیں جناب برسوں میں حیا و شرم تمہاری گواہ ہے اِس کی ہُوا ہے آج کوئی کامیاب برسوں میں...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش -- سائے ہیں بادلوں کے وہ، چھٹتے نہیں ذرا

    غزل شفیق خلش سائے ہیں بادلوں کے وہ، چھٹتے نہیں ذرا لا لا کے غم سروں پہ یہ، تھکتے نہیں ذرا کیسے قرار آئے دلِ بے قرار کو گھر سے اب اپنے وہ، کہ نکلتے نہیں ذرا کیا وہ بچھڑگئے، کہ خُدائی بچھڑ گئی دُکھ اب ہماری ذات کے بٹتے نہیں ذرا سُوجھے کوئی نہ بات ہمیں آپ کے بغیر موسم تخیّلوں کے بدلتے...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش --- نہ بوجھ یوں دلِ مُضطر پہ اپنے ڈال کے رکھ

    غزلِ شفیق خلش نہ بوجھ یوں دلِ مُضطر پہ اپنے ڈال کے رکھ دُکھوں کوگوشوں میں اِس کے نہ تُو سنبھال کے رکھ ہرایک شے پہ تو قدرت نہیں ہے انساں کو شکستِ دل کوبصورت نہ اک وبال کے رکھ گِراں ہیں رات کےآثار، ذہن دل کے لئے سُہانے یاد کے لمحے ذرا نکال کے رکھ میں جانتا ہوں نہیں دسترس میں وہ میری ہَوا...
Top