داغؔ

  1. ماروا ضیا

    داغ جس نے ہمارے دل کا نمونہ دکھا دیا - آفتاب داغ از داغ دہلوی

    جس نے ہمارے دل کا نمونہ دکھا دیا اُس آئینہ کو خاک میں اُس نے مِلا دیا معشوق کو اگر دلِ بے مدعا دیا پوچھے کوئی خُدا سے کہ عاشق کو کیا دیا بے مانگے دردِعشق وغم جاںگزا دیا سب کُچھ ہمارے پاس ہے اللہ کا دیا ناوک ابھی ہے شست میں صیاد کے مگر اُٹھتی ہیں اُنگلیاں وہ نشانہ اُڑا دیا...
  2. ماروا ضیا

    داغ بُتوں نے ہوش سنبھالا جہاں شعور آیا - آفتاب داغ از داغ دہلوی

    بُتوں نے ہوش سنبھالا جہاں شعور آیا بڑے دماغ بڑے ناز سے غرور آیا اُسے حیا اِدھر آئی اُدھر غرور آیا میرے جنازے کے ہمراہ دور دور آیا زُباں پہ اُن کےجو بھولے سےنامِ حور آیا اُٹھا کے آئینہ دیکھا وہیں غرور آیا تُمھاری بزم تو ایسی ہی تھی نشاط افزا رقیب نے بھی اگر پی مجھے سرور آیا کہاں کہاں دل...
  3. ماروا ضیا

    داغ اس کعبہِ دل کو کبھی ویران نہیں دیکھا - داغ دہلوی

    اس کعبہِ دل کو کبھی ویران نہیں دیکھا اُس بت کو کب اللہ کا مہماں نہیں دیکھا کیا ہم نے عذابِ شبِ ہِجراں نہیں دیکھا تُم کو نہ یقیں آئے تو ہاں ہاں نہیں دیکھا کیا تو نے میرا حال پریشاں نہیں دیکھا اس طرح سے دیکھا کہ میری جاں نہیں دیکھا جب پڑا وصل میں شوخی سے کسی کا پھر ہم نے گریباں کو گریباں...
  4. فاتح

    داغ جب ان سے حالِ دلِ مبتلا کہا، تو کہا ۔ "بچائے تجھ سے خدا" ۔ داغ کی مستزاد غزل

    داغ دہلوی کی ایک غزل مستزاد جب ان سے حالِ دلِ مبتلا کہا، تو کہا ۔ "بچائے تجھ سے خدا" کچھ اور اس کے سوا مدعا کہا، تو کہا ۔ "ہماری جانے بلا" کہا جو ان سے کہ ہو سر سے پاؤں تک بے عیب ۔ تو بولے وہ "لاریب" دغا شعار و ستم آشنا کہا، تو کہا ۔ "ملے گی تجھ کو سزا" غمِ فراق سنایا تو سن کے فرمایا ۔...
Top