بہاولپور اور کراچی

  1. کاشفی

    آپ کی ہستی میں ہی مستور ہو جاتا ہوں میں - آتش بہاولپوری

    غزل (آتش بہاولپوری) آپ کی ہستی میں ہی مستور ہو جاتا ہوں میں جب قریب آتے ہو خود سے دور ہوجاتا ہوں میں دار پر چڑھ کر کبھی منصور ہوجاتا ہوں میں طور پر جا کر کلیمِ طور ہوجاتا ہوں میں یوں کسی سے اپنے غم کی داستاں کہتا نہیں پوچھتے ہیں وہ تو پھر مجبور ہوجاتا ہوں میں اپنی فطرت کیا کہوں اپنی طبیعت کیا...
  2. کاشفی

    مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے - آتش بہاولپوری

    غزل (آتش بہاولپوری) مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے میری بھی کوئی قیمت ہوگئی ہے وہ جب سے ملتفت مجھ سے ہوئے ہیں یہ دنیا خوب صورت ہوگئی ہے چڑھایا جا رہا ہوں دار پر میں بیاں مجھ سے حقیقت ہوگئی ہے رواں دریا ہیں انسانی لہو کے مگر پانی کی قلت ہوگئی ہے مجھے بھی اک ستم گر کے کرم سے ستم سہنے کی عادت ہوگئی...
Top