ایسا نہیں کہ ان کا ، مرا رابطہ نہیں
ہے رابطہ مگر ذرا باضابطہ نہیں
اس دردِ لا دوا کی نہ تجھ کو خبر کہ تو
لفظوں کے ہیر پھیر سے آگے بڑھا نہیں
ہمت شکن سفربھی ہے درپیش کُو بہ کوُ
ان راستوں سے مَن مرا پھر بھی بھرا نہیں
ملتی ہیں روز ٹھوکریں بھی درد بھی نئے
لیکن کوئی بھی درد ترے درد سا نہیں
جلتا...
دیوانِ ؔمیر کہہ رہا تھا خوش لسان سے
اردو کے فیض دیدنی ہیں قدر دان سے
کشمیری النسب ہوں میں اقبال کی طرح
اردو کی لو لگی ہے مجھے خاندان سے
کتنے الگ مزاج ہیں کانٹوں سے پھول کے
شجرے ہیں نکلے دونوں کےاک خاندان سے
سوبرس خاک چھان لو سو صدیاں کھوج لو
منزل ہے کس نے پائی رہِ بے نشان سے?
مقصود گر ہے...
اسے ڈھونڈے بنا اک پل گزارا ہی نہیں تھا
محبت کے سمندر کا کنارہ ہی نہیں تھا
خطیبانِ محبت احمد و یوسف کے دیں ہیں
خلافِ عشق رب نے دیں اتارا ہی نہیں تھا
کہاں ڈھونڈوں گا میں خود کو ہجومِ انجمن میں
کسی بھی دوش پہ چہرہ ہمارا ہی نہیں تھا
سزا جس وصل کے لمحے کی کاٹی ہے ابھی تک
وہ لمحہ تو کبھی ہم نے گزا...