نازک بہت ہیں پاؤں مرے نونہال کے
آنکھیں بچھائے حور تو پلکیں نکال کے
وہ سو رہے ہیں منہ پہ دوپٹہ جو ڈال کے
کن حسرتوں سے تکتے ہیں ارماں وسال کے
کیا کیا تھے شوق آج عروسِ جمال کے
اندھیر تو نے کر دیا گھو نگھٹ نکال کے
برسات میں یہ اُن کی ادا دے گئی مزا
چلنا اٹھا کے پائنچے دامن سنبھال کے
کم سِن ہیں ڈر...