نتائج تلاش

  1. طارق شاہ

    اکثر اپنے درپئے آزار ہو جاتے ہیں ہم۔شبنم شکیل

    غزل اکثر اپنے درپئے آزار ہو جاتے ہیں ہم سوچتے ہیں اِس قدر ، بِیمار ہوجاتے ہیں ہم مُضْطَرِب ٹھہْرے ، سو شب میں دَیر سے آتی ہے نِینْد! صُْبْح سے پہلے مگر ، بیدار ہو جاتے ہیں ہم نام کی خواہش، ہَمَیں کرتی ہے سرگرْمِ عَمَل اِس عَمَل سے بھی مگر، بیزار ہوجاتے ہیں ہم جُھوٹا وعدہ بھی اگر...
  2. طارق شاہ

    ادا جعفری خُود حِجابوں سا، خُود جَمال سا تھا

    غزل خُود حِجابوں سا، خُود جَمال سا تھا دِل کا عالَم بھی بے مِثال سا تھا عکس میرا بھی آئِنوں سے نہاں وہ بھی اِک کیفیّت خیال سا تھا دشت میں، سامنے تھا خَیمۂ گُل دُورِیوں میں عَجب کمال سا تھا بے سَبَب تو نہیں تھا آنکھوں میں ایک مَوسَم، کہ لا زَوَال سا تھا خَوف انْدھیروں کا، ڈر اُجالوں سے...
  3. طارق شاہ

    کہاں گئے میرے دِلدار و غمگُسار سے لوگ۔زہرا نِگاہ

    ‎غزل ‎کہاں گئے میرے دِلدار و غمگُسار سے لوگ وہ دِلبَرانِ زَمِیں، وہ فَلک شِعار سے لوگ ‎!وہ موسَموں کی صِفَت سب کو باعثِ تسکِیں وہ مہْر و مَہ کی طرح، سب پہ آشکار سے لوگ ‎ہر آفتاب سے کِرنیں سَمیٹ لیتے ہیں ہمارے شہر پہ چھائے ہُوئے غُبار سے لوگ ‎ہم ایسے سادہ دِلوں کی، کہیں پہ جا ہی نہیں چہار سمْت...
  4. طارق شاہ

    ادا جعفری شاید ابھی ہے راکھ میں کوئی شرار بھی

    غزل شاید ابھی ہے راکھ میں کوئی شرار بھی کیوں ورنہ اِنتظار بھی ہے، اِضطِرار بھی دھیان آ گیا تھا، مرگِ دِلِ نامُراد کا مِلنے کو مِل گیا ہے سُکُوں بھی قرار بھی اب ڈھونڈنے چلے ہو مُسافر کو، دوستو! حَدِّ نِگاہ تک، نہ رہا جب غُبار بھی ہر آستاں پہ ناصِیہ فرسا ہیں آج وہ جو کل نہ کر سکے تھے...
  5. طارق شاہ

    زیبِ گُلو وہ زُلفِ گِرہ گِیر اب بھی ہے۔مشتاق عاجزؔ

    غزل زیبِ گُلو، وہ زُلفِ گِرہ گِیر اب بھی ہے وحشی اَسِیرِ حلقۂ زنجیر اب بھی ہے کب کا اُجڑ چُکا ہے شِوالہ شباب کا لیکن وہ بُت، کہ آنکھ میں تصویر اب بھی ہے دِل ہے کہ، ٹُوٹتا ہی چَلا جائے ہے، مگر! اِمکاں میں ایک صُورتِ تعمیر اب بھی ہے آمادۂ سوال نہیں غیرتِ جُنوں! ورنہ، دُعا کے حرف میں...
  6. طارق شاہ

    ادا جعفری مِری زَمِیں پہ جو مَوسم کبھی نہیں آیا

    غزل مِری زَمِیں پہ جو مَوسم کبھی نہیں آیا یہی بُہت ہے کہ، اُس پر مجھے یقیں آیا مَیں خود ہی ہِجْر کا موسم، مَیں خود وِصال کا دِن مِرے لِیے، مِرا روزِ جزا یہیں آیا تسلِّیوں سے کہاں بارِ زِندگی اُٹھتا! یَقِیں تو اپنی وَفاؤں پہ بھی، نہیں آیا اِن آنسوؤں کا سَفر بھی ہے بادَلوں جیسا بَرس گیا ہے...
  7. طارق شاہ

    فیضان محبّت نہ ہُوا عام ابھی تک ۔محمد ایوب ذوقؔی

    غزل فیضان محبّت نہ ہُوا عام ابھی تک تارِیک ہے اِنسان کا انجام ابھی تک مَیخانے میں، ہے تِشنہ لَبِی عام ابھی تک گردِش میں، محبّت کے نہیں جام ابھی تک چِھینا ہے سُکوں دَہْر کا، اربابِ خِرد نے ہَیں، اہلِ جُنوں مورَدِ اِلزام ابھی تک واماندۂ منزِل ہے جو اے راہ رَوِ شوق ! شاید، ہے تِرا ذَوقِ...
  8. طارق شاہ

    ہمہ سکوت جو صہبا دکھائی دیتا ہے ۔ صہبا اختر

    جو ظُلمتوں سے گُزرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں! نظر نہ آئے تو ، کیا کیا دِکھائی دیتا ہے کیا کہنے
  9. طارق شاہ

    ہمسفر وہ ہیں، جو ہر حال بَہم چلتے ہیں-احساؔن عَلِیم

    غزل یُوں تو چلنے کوسبھی چند قدم چلتے ہیں ہمسفر وہ ہیں، جو ہر حال بَہم چلتے ہیں فکر و فن راہ نُما ہوں، تو قلم چلتے ہیں سخت و سنگلاخ زمِیں پر بھی قدم چلتے ہیں نقدِ جاں، سکّۂ ایثار و وَفا، لے کے چلو اُن کے کُوچے میں کہاں دام و دِرم چلتے ہیں ہم فقیروں کی تو بستی سے نہ گُزرے اب تک جانے کِس راہ...
  10. طارق شاہ

    اکبر الہ آبادی ہستیٔ حق کے معانی جو مِرا دِل سمجھا۔

    غزل اکبؔر الہٰ آبادی ہستیٔ حق کے معانی جو مِرا دِل سمجھا اپنی ہستی کو اِک اندیشۂ باطِل سمجھا وہ شناوَر ہُوں جو ہر مَوج کو ساحِل سمجھا وہ مُسافِر ہُوں، جو ہر گام کو منزِل سمجھا حضْرتِ دِل کو چڑھا آیا مَیں، بُتخانے میں اُن کے انداز سے، اُن کو اِسی قابِل سمجھا ہُوئی دُنیا میں مِرے جوشِ...
  11. طارق شاہ

    سفر طوِیل ہے، راہِ نجات چھوٹی ہے-مِیر مُحَمَّد عَلِی وَفَاؔ

    سفر طویل ہے؛ رَاہِ نَجات چھوٹی ہے علیؑ کا ذِکر بہت ہے؛ حَیات چھوٹی ہے علیؑ کو کیسے مَیں مَولائے کائنات کہوں؟ بڑا ہے نامِ علیؑ، کائنات چھوٹی ہے علیؑ کا ذِکر کرو، اور پڑھو یہ چہروں پر! ہے کون اَعلٰی نَسَب، کِس کی ذات چھوٹی ہے؟ عَجَب ہیں شَہرِ وِلَاءِ عَلِیؑ کے لَیلُ وْ نَہَار یَہاں کا دن ہے...
  12. طارق شاہ

    لالۂ صحرائی۔نظم از علامہ اقباؔل

    لالۂ صحرا علامہ اقباؔل یہ گنبدِ مِینائی، یہ عالَمِ تنہائی مجھ کو تو ڈراتی ہے اِس دشت کی پنہائی بھٹکا ہُوا راہی مِیں، بھٹکا ہُوا راہی تُو منزِل ہے کہاں تیری! اے لالۂ صحرائی خالی ہی کلِیموں سے یہ کوہ و کمر، ورنہ ! تُو شعلۂ سِینائی، مَیں شعلۂ سِینائی تُو شاخ سے کیوں پُھوٹا، مَیں شاخ سی کیوں...
  13. طارق شاہ

    جگر آیا نہ راس نالۂ دِل کا اثر مجھے

    غزل جگؔر مراد آبادی آیا نہ راس نالۂ دِل کا اثر مجھے اب تُم مِلے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے ‎دِل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغِ جِگر مجھے ‎یہ بات بُھولنے کی نہیں، عمر بھر مجھے ‎ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ، جلوہ گر مجھے ‎کیا کیا فریب، دیتی ہے میری نظر مجھے مِلتی نہیں ہے لذّتِ دردِ جِگر مجھے بُھولی...
  14. طارق شاہ

    احسان دانش یہ تو نہیں کہ تُم سے محبّت نہیں مُجھے۔

    غزل احسان دانشؔ یہ تو نہیں کہ تُم سے محبّت نہیں مُجھے اِتنا ضرُور ہے کہ شِکایت نہیں مجھے میں ہُوں، کہ اِشتیاق میں سر تا قَدم نَظر وہ ہیں کہ ،ِاک نَظر کی اِجازت نہیں مجھے آزادئِ گُناہ کی حسرت کے ساتھ ساتھ آزادئِ خیال کی جُرأت نہیں مجھے دَوبھر ہے گرچہ جَور ِعَزِیزاں سے زندگی لیکن خُدا...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش جوكہی تجھ سے بات كہہ دينا۔

    غزل جوكہی تجھ سے بات كہہ دينا ہےمصيبت میں ذات كہہ دینا أن كے جانے سے جو ہُوئی طارى وه كٹی ہے نہ رات كہہ دینا ہم دِل آزارى پر، پَشیماں ہیں ! پُوچھ كر ذات پات كہہ دينا اِستتقامت جو قول و فعل میں تھى ہے وه، اب بھى ثبات كہہ دينا معنٰی ركھتے نہیں بغیر أن كے کچھ حيات وممات كہہ دينا أن كى صرفِ...
  16. طارق شاہ

    ہیں تو اچھّی چھب کے سب ریحان منصور آنولوی

    غزل ریحان منصور آنولوی ہیں تو اچھّی چھب کے سب کب ہیں تیرے ڈھب کے سب ماہر ہیں کرتب کے سب اپنے اپنے ڈھب کے سب روگ لگا رکھیں ہیں دِل کو ہم نے بے مطلب کے سب اپنے ساتھ ہی لے کے جانا اپنی یادیں اب کے سب پُھول چُرانا چاہے ہیں ! رنگ تمھارے لب کے سب تیرے ہی شیدائی نِکلے بزم میں تیری سب کے سب بے...
  17. طارق شاہ

    راہیں دُھواں دُھواں ہیں، سفر گرد گرد ہے-اسدؔ رضا- دلی انڈیا

    غزل اسدؔ رضا راہیں دُھواں دُھواں ہیں، سفر گرد گرد ہے یہ منزلِ مُراد تو، بس درد درد ہے اپنے پڑوسِیوں کو بھی پہچانتا نہیں محصُور اپنے خَول میں اب فرد فرد ہے اِس موسَمِ بَہار میں، اے باغباں! بتا چہرہ ہر ایک پُھول کا، کیوں زرد زرد ہے لفّاظِیوں کا گرْم ہے بازار کِس قَدر دستِ عَمل...
  18. طارق شاہ

    بظاہر رونقوں میں، بزم آرائی میں جیتے ہیں-صبیحہ صباؔ

    غزل صبیحہ صباؔ بظاہر رونقوں میں، بزم آرائی میں جیتے ہیں حقیقت ہے، کہ ہم تنہا ہیں تنہائی میں جیتے ہیں سَجا کر چار سُو رنگیں محل تیرے خیالوں کے! تِری یادوں کی رعنائی میں، زیبائی میں جیتے ہیں خُوشا! ہم اِمتحانِ دشت گردی کے نتیجے میں! بَصد اعجاز، مشقِ آبلہ پائی میں جیتے ہیں سِتَم گاروں نے...
Top