نتائج تلاش

  1. امر شہزاد

    غزل: اپنے رب کا نشان چاہتا ہوں (مہدی نقوی حجاز)

    مُختار ہیں ، شاعر جو چاہیں کریں۔:battingeyelashes:
  2. امر شہزاد

    غزل: اور اک بار ہو گئے زندہ (مہدی نقوی حجازؔ)

    پوری غزل ہی قابلِ داد ہے ۔ صور پھونکا گیا تو سب کی طرح ہم بھی ناچار ہو گئے زندہ سیدھا سیدھا دل پہ نشانہ کرتا ہے یہ شعر بہت زبردست شعر۔ لا جواب
  3. امر شہزاد

    غزل: اپنے رب کا نشان چاہتا ہوں (مہدی نقوی حجاز)

    اے+ک ان+ دھے+را میرے خیال میں ایک سبب اضافی ہے۔
  4. امر شہزاد

    غزل: اپنے رب کا نشان چاہتا ہوں (مہدی نقوی حجاز)

    اپنا ماضی سمیٹنے کے لیے ایک اندھیرا مکان چاہتا ہوں یہ مصرع کہہ رہا ہے ، "میں بھی تیرا دھیان چاہتا ہوں" اتنا بےلوث خیر میں بھی نہیں میں بھی تیرا دھیان چاہتا ہوں واہ!
  5. امر شہزاد

    غزل: ڈھونڈتا ہوں کوئی روشنی میں! (مہدی نقوی حجاز)

    کچھ نقوش اور واضح ہوئے ہیں ماند پڑتی ہوئی روشنی میں سبحان اللہ! کیا عرفان ہے۔
  6. امر شہزاد

    بھوک کم کم ہے پیاس کم کم ہے ۔۔۔۔ عمران شناور

    سانس لیتے تھے ہجر موسم میں اب یہ موسم بھی راس کم کم ہے واہ!
  7. امر شہزاد

    مٹائے مٹ نہیں سکتا کسی دل سے بھی نام اس کا ۔۔۔۔ برائے اصلاح

    دوسرے شعر کے پہلے مصرعے پہ توجہ کریں
  8. امر شہزاد

    سدومِ دل

    اثر کبھی تویہ رنگین خواب لائیں گے جو دن بہار کے لوٹے گلاب لائیں گے سدومِ دل بڑی مستی کے دن گزارتا ہے ہمیں خبر ہے کہ مہماں عذاب لائیں گے
  9. امر شہزاد

    عادتاً وحشتوں میں جیتا ہوں ۔ فاتح الدین بشیر

    کمال کر دیا ہے آپ نے۔ بس یہ ایک شعر سمجھ نہیں پایا۔ ضربِ نفیِ وجود و عشق ہوں میں گویا میں مثبتوں میں جیتا ہوں
  10. امر شہزاد

    تکلف برطرف ہوگا خطاب آہستہ آہستہ

    ہوئی محتاط سے انداز میں یوں گفتگو اپنی سوال آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ واہ ایک شعر یاد آیا سوال وصل پر ان کو عدو کا خوف ہے اتنا دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
  11. امر شہزاد

    کہیں مسجد نہیں بنتی کہیں مینار بنتے ہیں

    خدائی کو ستاتے ہیں خدا کے یار بنتے ہیں واہ اسی حوالے سے یاد آیا عبد الحمید عدم کہتے ہیں اے خدا تیرے چاہنے والے تنگ کرتے ہیں تیرے بندوں کو باغ جنت کے سبز پیڑوں سے باندھ اپنے نیاز مندوں کو
  12. امر شہزاد

    میں شہرِ ذات سے نکلا تو دربدر بھٹکا

    وہ مردِ حق جسے ادراکِ ہست و بود ہوا وہ باخبر تھا بظاہر وہ بے خبر بھٹکا واہ
  13. امر شہزاد

    یہ حادثہ کبھی ہوتا کہ وہ وفا کرتا

    نہیں طنز تو نہیں کیا میں تو حیران ہوں
  14. امر شہزاد

    حمد: ہوتا ہے ترے نام سے آٍغاز مرا دن : محمد حفیظ الرحمٰن

    ہر چیز کو مٹنا ہے کہ ہر چیز ہے فانی باقی جو رہے گا وہ فقط تیرا ہی اک نام بے شک
  15. امر شہزاد

    غزل: ہم شکوہءدامان وگریباں نہ کریں گے : از: محمد حفیظ الرحمٰن

    آجائے ترے بن ہمیں جینے کا قرینہ اس بات کا ہرگز کوئی ساماں نہ کریں گے لا جواب
  16. امر شہزاد

    یہ حادثہ کبھی ہوتا کہ وہ وفا کرتا

    اچھا جی پھر تو بڑی سپیڈ ہے آپ کی!
  17. امر شہزاد

    دسمبر جاتے جاتے یہ مِری فریاد سُن جانا۔۔۔۔۔۔از زبیر قمر عباسی

    دسمبر جاتے جاتے یہ مِری فریاد سُن جانا کہ اگلے سال جب آﺅ تو یوں تنہا نہیں آنا میں جس کے ہجر میں ہر لحظہ ہر لمحہ تڑپتا ہوں مِری اُس راحتِ جاں کو تم اپنے ساتھ لے آنا آمین
  18. امر شہزاد

    دیکھتا ھوں ,,,

    میں سوچتا ھوں تو پھر سوچتا ھی جاتا ھوں میں دیکھتا ھوں تو پھر ھر کسی کو دیکھتا ھوں کیا بات ہے آپ کی!
  19. امر شہزاد

    غزل: جب کبھی ہم بھی محترم ہونگے (ترمیم شدا)

    وعدہ اجلاؔل کر لیا ہم نے دل میں جب تک رہا وہ، ہم ہونگے کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ خود ہی اسے بہتر کر سکتے ہیں۔
  20. امر شہزاد

    یہ پر یقین کے تو ملے بعد میں مُجھے

    اس آگہی کا بوجھ کہاں تک سہے کوئی اس آگہی کے بوجھ کو انسان سے اُٹھا واہ قاتل ہمارا سر بھی فخر سے بلند ہے تلوار تو بھی دیکھ ذرا آن سے اُٹھا
Top