غزل: جب کبھی ہم بھی محترم ہونگے (ترمیم شدا)

غلطیوں کی اصلاح کے بعد غزل دوبارہ پوسٹ کرنے کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ پچھلے دھاگے میں ترمیم کا Option نہیں ملا۔ انشاءاللہ آئندہ احتیاط برتی جائے گی۔ شکریہ!​
غزل

جب کبھی ہم بھی محترم ہونگے
تب ترے سب ستم رقم ہونگے

اشک ریزاں رہیں گے ساری عمر
عشق کے امتحاں نہ کم ہونگے

دور بھاگو گے اپنے سائے سے
جب جہاں میں کہیں نہ ہم ہونگے

پاس آؤ ذرا سی دیر تو تم
کچھ تو صدمے دلوں کے کم ہونگے

ناز سارے ترے اٹھالیں گے
لوٹ آؤ کہ پھر نہ ہم ہونگے

زیرِ لب ہی رہیں گلے شکوے
آہ کرنے سے کم نہ غم ہونگے

ہوش ہوتا تو کیوں اُدھر جاتے
بیخودی میں اٹھے قدم ہونگے

وعدہ اجلاؔل کر لیا ہم نے
دل میں جب تک رہا وہ، ہم ہونگے

(سید اجلاؔل حسین - ۴ جنوری، ۲۰۱۳؁ )
 

قیصرانی

لائبریرین
ترمیم کے لئے آپ متعلقہ زمرے کے کسی ایڈمن کو ٹیگ کر دیجئے گا۔ اگر کوئی عام تبدیلی ہو تو

شمشاد بھائی
ساجد بھائی
محمد وارث بھائی
میں بقلم خود
میں سے کسی کو ٹیگ کر دیجئے
 

امر شہزاد

محفلین
وعدہ اجلاؔل کر لیا ہم نے
دل میں جب تک رہا وہ، ہم ہونگے

کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ خود ہی اسے بہتر کر سکتے ہیں۔
 
Top