اصلاح درکار ہے بیرادر
دل کہ خلوت کے راگ گاتا ہے
وہ دبے پاؤں جب بھی آتا ہے
یاد تو محض اک بہانا ہے
ہستیِ جاں تو غم جلاتا ہے
آتشِ فکر کا وسیلہ ہے
لفظ انسان کو جِلاتا ہے
بیتا کل آج بھی نہیں بیتا
وقت ملتے ہی پھر رلاتا ہے
بات رسمی سی ہے نہ کر چرچا
دل تو اکثر ہی ٹوٹ جاتا ہے