حسین منصور
محفلین
سرخ کتبے
سنو درندو !
سڑک کے پتھر میں جذب ہوتا لہو
کسی کا لہو تو ہو گا
کسی کا وارث تھا وہ بھی
جیسا تمہارے آنگن میں کھیلتا ہے
سنو درندو !
کسی کی ماں ہے
جو سرد خانے کی تلخ پڑتی ہوئی فضاؤں
میں گرم آنسو بہا رہی ہے
لرزتے ہاتھوں کو بے بسی سے کفن کی جانب بڑھا رہی ہے
کہیں شناسا نہ ہو وہ چہرہ جو اس میں لپٹا پڑا ہوا ہے
سنو درندو !
کسی کی بیٹے کی لاش ہے وہ
جو اپنے ابا کی راہ تکتے میں جم گئی ہے
سنو !
کہ قبروں کی بادشاہی میں عظمتوں کی نوید کیا ہے ؟
سنو ! کہ مردوں پہ راج کرنے میں لمحہ پر سعید کیا ہے ؟
سنو درندو !
اجل کی قسمت میں ہر رگ جاں کا ذائقہ لکھ دیا گیا ہے
تمہاری قبروں کی سرخ کتبے
تمہاری لاشوں کا پوچھتے ہیں
زمیں کے اوپر عذاب بن کر اترنے والو
زمیں کے نیچے جو منتظر ہے
وہ وقت تم پر عذاب ہو گا
یہاں کے منصف سے بچنے والو
وہاں تمہارا حساب ہو گا
(عائشہ غازی)
سنو درندو !
سڑک کے پتھر میں جذب ہوتا لہو
کسی کا لہو تو ہو گا
کسی کا وارث تھا وہ بھی
جیسا تمہارے آنگن میں کھیلتا ہے
سنو درندو !
کسی کی ماں ہے
جو سرد خانے کی تلخ پڑتی ہوئی فضاؤں
میں گرم آنسو بہا رہی ہے
لرزتے ہاتھوں کو بے بسی سے کفن کی جانب بڑھا رہی ہے
کہیں شناسا نہ ہو وہ چہرہ جو اس میں لپٹا پڑا ہوا ہے
سنو درندو !
کسی کی بیٹے کی لاش ہے وہ
جو اپنے ابا کی راہ تکتے میں جم گئی ہے
سنو !
کہ قبروں کی بادشاہی میں عظمتوں کی نوید کیا ہے ؟
سنو ! کہ مردوں پہ راج کرنے میں لمحہ پر سعید کیا ہے ؟
سنو درندو !
اجل کی قسمت میں ہر رگ جاں کا ذائقہ لکھ دیا گیا ہے
تمہاری قبروں کی سرخ کتبے
تمہاری لاشوں کا پوچھتے ہیں
زمیں کے اوپر عذاب بن کر اترنے والو
زمیں کے نیچے جو منتظر ہے
وہ وقت تم پر عذاب ہو گا
یہاں کے منصف سے بچنے والو
وہاں تمہارا حساب ہو گا
(عائشہ غازی)