فتنہ پھر آج اُٹھانے کو ہے سر لگتا ہے
خُون ہی خُون مجھے رنگِ سحر لگتا ہے
احتیاطاً، کوئی در پھوڑ لیں دیوار میں اب !
شور بڑھتا ہوا کچُھ جانبِ در لگتا ہے
آنند نرائن مُلّا
مئے رنگیں! پسِ مینا سے اِشارے کب تک !
ایک دن ساغرِ رِندانِ بَلا نوش میں آ
عشق کرتا ہے، تو پھرعشق کی توہین نہ کر
یا تو بے ہوش نہ ہو، ہو تو نہ پھر ہوش میں آ
آنند نرائن مُلّا
چُھپ کے دُنیا سے سوادِ دلِ خاموش میں آ
آ یہاں تو مِری ترسی ہُوئی آغوش میں آ
اور دُنیا میں تِرا کوئی ٹِھکانہ ہی نہیں
اے مِرے دل کی تمنّا، لبِ خاموش میں آ
آنند نرائن مُلّا
غزلِ
فیض احمد فیض
آؤ کہ مرگِ سوزِ محبّت منائیں ہم
آؤ کہ حُسنِ ماہ سے، دل کو جلائیں ہم
خوش ہوں فراقِ قامت و رخسارِ یار سے
سرو گل و سمن سے نظر کو ستائیں ہم
ویرانیِ حیات کو ویران تر کریں
لے ناصح آج تیرا کہا مان جائیں ہم
پھر اوٹ لے کے دامنِ ابرِ بہار کی
دل کو منائیں ہم، کبھی آنسو بہائیں ہم...
صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے اُن کے ہاتھوں کی
ٹھہر ٹھہر کے ہوتا ہے آج دل کو گماں
وہ ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں بساطِ محفل میں
کہ دل کے داغ کہاں ہیں، نشستِ درد کہاں
فیض احمد فیض
خو د ہی آزاد ہیں ہم ، خود ہی گرفتارِ بلا
تجھ سے شکوہ، ہمیں اے گردشِ ایّام نہیں
بخش دے شمس کو، تھا تابعِ فرمانِ قضا
قابلِ عفو ہے، گو لائقِ انعام نہیں
قاضی شمس الحق شمس
جب سے پہلوُ میں ہمارے وہ دل آرام نہیں
چین دم بھر کو ہمیں صبح نہیں، شام نہیں
کون سی شب ہے ہماری کہ، تڑپتے نہ کٹی !
کون سا دن ہے، کہ وقفِ غم و آلام نہیں
قاضی شمس الحق شمس
اللّہ ہم سب کو آسانیاں فراہم کرے آمین
اور صبر و تحمل بھی
ناراضگی خواہ کسی اور سے ہو خود اپنے لئے بھی صحیح نہیں، نفرت یا غصہ بظاہر دوسرے کے لئے ہوتا ہے لیکن اپنے اندر ہی ہوتا ، رہتا اور پلتا ہے
مت جائیں گے تو خوشی ہو گی