غزلِ
ثاقب لکھنوی
ایک ایک گھڑی اُس کی قیامت کی گھڑی ہے
جو ہجر میں تڑپائے، وہی رات بڑی ہے
یہ ضُعف کا عالم ہے کہ ، تقدیر کا لِکھّا
بستر پہ ہُوں میں یا ، کوئی تصویر پڑی ہے
بیتابئ دل کا ، ہے وہ دِلچسپ تماشہ !
جب دیکھو شبِ ہجر مِرے در پہ کھڑی ہے
اب تک مجھے کُچھ اور دِکھائی نہیں دیتا
کیا...
روشنی پڑ نہیں سکتی کے بجلی چلی گئی ہے شاید :)
"رہینِ دل ہو تو، ہر فکر ہر خیال میں تم
رہے ہو تم ہی تو ہر راہ، ہمسفر میرے "
یہی مطلب ہے دل سے دل کو راہ ہونے کی ، میرے خیال میں
گاہے گاہے باز خواں ایں قصّۂ پارینہ را
آب حیات
( محمد حسین آزاد )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
به این نگاه کو
مکتوبات مولانا محمد حسین آزاد کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
مقالہ نگار: مسرت شاہین
گھنی چھاؤں والے درختوں تلے دن کو تو سویا یا آرام کیا جاسکتا ہے
مگر ان کے تلے رات کو سونا صحت کے لئے مضر ہے کیونکہ :
رات کے وقت ان سے کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج ہوتا ہے
غزلِ
بیخود دہلوی
اُٹھّے تِری محفِل سے تو کِس کام کے اُٹھّے
دل تھام کے بیٹھے تھے جگر تھام کے اُٹھّے
دم بھر مِرے پہلوُ میں اُنھیں چین کہاں ہے
بیٹھے کہ بہانے سے کِسی کام کے اُٹھّے
افسوس سے اغیّار نے کیا کیا نہ ملے ہاتھ
وہ بزم سے جب ہاتھ مِرا تھام کے اٹھے
دُنیا میں کِسی نے بھی یہ دیکھی...