غزلِ
شفیق خلش
ہزار سی بھی لوُں دامن، سِیا نہیں لگتا
جنُوں سے عِشق میں سودا کِیا نہیں لگتا
اِک امتحان سے گُذرا ہُوں، کیوں نہیں سمجھیں
یونہی نہیں میں ہر اِک کو جِیا نہیں لگتا
وہ اطمینان سے یُوں ہیں، کہ میں کسی کو بھی اب
خود اپنے آپ پہ تہمت لِیا نہیں لگتا
وقوعِ وصل پہ کہتے ہیں سب، کرُوں...
غزلِ
شفیق خلش
دوڑے آتے تھے مِرے پاس صدا سے پہلے
اب وہ شاید ہی، کبھی آئیں قضا سے پہلے
کوئی اور آ کے ہی بتلادے ہمیں حال اُن کا !
دردِ دل غم سا ہی ہو جائے سَوا سے پہلے
عادتیں ساری عِنایت کی بدل دیں اُس نے
اب تسلّی نہیں دیتے وہ سزا سے پہلے
روز و شب وہ بھی اذیّت میں ہُوئے ہیں شامِل
یادِ جاناں...
ہُوں کِرن سُورج کی پہلی، اور کبھی سایا ہُوں میں
شفیق خلش
ہُوں کِرن سُورج کی پہلی، اور کبھی سایا ہُوں میں
کیسی کیسی صُورتوں میں وقت کی آیا ہُوں میں
قُربِ محبُوباں میں اپنی نارسائی کے سبب
گھیرکرساری اُداسی اپنے گھر لایا ہُوں میں
گو قرار آئے نہ میرے دل کو اُن سے رُوٹھ کر
جب کہ مِلنے سے اِسی...