ہم نے شاعری نہیں کی
ہم نے تو بات کی ہے
ہم نے غزلوں اور نظموں کے درختوں تلے
ردیف قافیے
مطلعوں اور مقطعوں
کے سانس نہیں گھونٹے
ہم نے تو گاؤں کے تکیے کے سرے پر
ہزاروں سہمی ہوئی رُتوں کی
اک کہانی ابھاری ہے
ہم نے تو بات کی ہے
ہم نے منت نہیں کی
ہم نے لفظوں کی مالا بُن کر کسی کتاب کی گردن میں نہیں...