دن ایک ستم، ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو، دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
ہم کو جو ملا ہے وہ تمھیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھُلا دیں تمھیں، کیا بات کرو ہو
کلیم عاجز
غزل
عظمتِ فن کے پرستار ہیں ہم
یہ خطا ہے، تو خطا وار ہیں ہم
جہد کی دُھوپ ہے ایمان اپنا
منکرِ سایۂ دِیوار ہیں ہم
جانتے ہیں ترے غم کی قیمت
مانتے ہیں، کہ گنہگار ہیں ہم
اُس کو چاہا تھا کبھی خود کی طرح !
آج خود اپنے طلبگار ہیں ہم
اہلِ دُنیا سے شکایت نہ رہی
وہ بھی کہتے ہیں زیاں کار ہیں ہم...