بہت خوب راحیل میاں۔ اچھا مقدمہ پیش کیا ہے۔
وجود مٹی کا قرض ہے اور روح خدا کی پھونکی ہوئی۔ ہر دو اپنے اصل کے ہجر میں مبتلا کیے رکھتے ہیں، انسان خوش رہے بھی تو کیسے ؟ یہی خلش ہے یہی قلق ہے جس نے انسان کو مستقل بے چین رکھا ہوا ہے۔
صبا درمصطفیٰﷺ تے جا کے کہویں درود و سلام میرا، سلام میرا
نبیﷺ دے قدماں تے سر جھکا کے، کہویں درود و سلام میرا،
سلام میرا
توں لے کے بوسہ او جالیاں دا، او جالیاں کرماں والیاں دا
سوال کہہ کے سوالیاں دا، کہویں درود و سلام میرا،
سلام میرا
توں سامنے روضے دے کھلو کے، میری طرح زار و زار رو کے
نثار...
برادرم محمد امین یہ آپ کا شاید واحد ایسا مراسلہ ہے جو مجھے پہلی ہی بار پڑھ کر مکمل سمجھ آ گیا ہے۔:p حسن اتفاق سے جمعرات بھی ہے، دل کر رہا ہے اس خوشی میں کہیں دیا جلا آؤں، کچھ بانٹ آؤں۔ :cool2: