دِکھا کے خواب یہ محرُومِ خواب کِس نے کِیا
تمام عُمر کا جِینا عذاب کِس نے کِیا
جو احتیاطِ نظر ہی سے راز فاش ہُوا
تو یہ قصُور بھی آخر جناب کِس نے کِیا
مُرتضٰی برلاؔس
موسمِ گُل مِرا، خوشیوں کا زمانہ وہ تھا
ہنس کے جینے کا اگر تھا ، تو بہانہ وہ تھا
وقتِ رُخصت بڑا مُشکل تھا چُھپانا غم کا !
اشک آنکھوں سے رَواں تھے، جو روانہ وہ تھا
شفیق خلؔش
شامِ غم کچھ اُس نگاہِ ناز کی باتیں کرو
بےخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو
نِکہتِ زُلفِ پریشاں، داستانِ شامِ غم !
صُبح ہونے تک اِسی انداز کی باتیں کرو
فِراؔق گورکھپُوری