غزل
کچھ نہ ہم کو سُجھائی دیتا ہے
ہر طرف وہ دِکھائی دیتا ہے
خود میں احساس اب لئے اُن کا
لمحہ لمحہ دِکھائی دیتا ہے
ہوگئے خیر سے جواں ہم بھی
گُل بھی کیا گُل دِکھائی دیتا ہے
دسترس میں ہے کُچھ نہیں پھر بھی
اُونچا اُونچا سُجائی دیتا ہے
کب محبّت میں سُرخ رُو ہونا
اپنی قسمت دِکھائی دیتا...
غزل
آئیں اگر وہ یاد تو مرتے نہیں ہیں ہم
حالت خراب دِل کی گو کرتے کہیں ہیں کم
دِل خُون ہے اگرچہ شب و روز ہجر میں
آنکھوں کو اپنی شرم سے کرتے نہیں ہیں نم
ایسا بُجھادِیا ہَمَیں فُرقت کی دُھوپ نے
کوشِش رہے ہزار نِکھرتے کہیں ہیں ہم
اِک پَل نہ ہوں گوارہ کسی طور یُوں ہَمَیں
دِل پر سوار ہو کے...
غزل
خوار و رُسوا تھے یہاں اہلِ سُخن پہلے بھی
ایسا ہی کُچھ تھا زمانے کا چلن ، پہلے بھی
مُدّتوں بعد تجھے دیکھ کے یاد آتا ہے
مَیں نے سِیکھا تھا لہُو رونے کا فن پہلے بھی
ہم نے بھی پایا یہاں خِلعَتِ سنگ و دُشنام
وضعدار ایسے ہی تھے اہلِ وطن پہلے بھی
دِلنواز آج بھی ہے نِیم نِگاہی تیری
دِل شکن...
غزل
تیرِ نظر چلاتے ہُوئے مُسکرا بھی دے
آمادہ قتل پر ہے تو، بجلی گِرا بھی دے
رُخ سے نقاب اُٹھا کے ، کرِشمہ دِکھا بھی دے
سُورج کو چاند، چاند کو سُورج بَنا بھی دے
دامن سے آکے مُجھ کو اے قاتِل ہَوا بھی دے
جِس نے کِیا ہے خُون، وہی خُوں بہا بھی دے
منزِل ہے تیری، حدِّ تعیُّن سے ماوراء
دَیر و حَرَم...
غزل
جیسی چاہی تھی مُلاقات نہ ہونے پائی
آج پِھر اُن سے مِری بات نہ ہونے پائی
بِکھرے بِکھرے ہی رہے مجھ میں مِرے خواب و خیال !
مجتمع مجھ سے مِری ذات نہ ہونے پائی
ضبط نے پھوڑے اگرچہ تھے پھپھولے دِل کے
شُکر آنکھوں سے وہ برسات نہ ہونے پائی
سر پہ ہر وقت چمکتا رہا میرے سُورج
دِن گُزرتے گئے اِک رات...
اب، خلوَتوں کی آگ میں ہے کاروبارِ آب
کل، جلوَتوں کے راگ میں تھیں بادہ خواریاں
اب، مے کشی کے رُوپ میں ہے شُغلِ مے کشی
کل، سرخوشی کے رنگ میں تھیں مے گُساریاں
جوشؔ ملیح آبادی
اِس کی خبر نہ تھی ، کہ پسِ پُشتِ عِزوجاہ
دبکی کھڑی ہیں، ایک زمانے کی خواریاں
گِنتا تھا، فردِ عیش میں ،کل نامِ گُل رُخاں
اور اب، تمام رات ہیں اختر شُماریاں
جوشؔ ملیح آبادی
گرم ہیں شور سے تجھ حُسن کے بازار کئی
رشک سے، جلتے ہیں یوسفؑ کے خریدار کئی
کب تلک داغ دِکھاوے گی اسیری مجھ کو !
مرگئے ، ساتھ کے میرے تو گرفتار کئی
مِیر تقی مِیرؔ