احساں کئے تھے اُس نے جور عتاب کر کے
ہم کس قدر ہیں نادم اُس سے حساب کر کے
اُس سے کِیا تقاضا ہم عبث وفا کا
اچھی بھلی محبت رکھ دی عذاب کر کے
کس درجہ بد مزہ تھا واعظ کا وعظ یوں تو
کچھ چاشنی سی آئی ذکرِ شراب کر کے
رندوں نے صدقِ دل سے زاہد کو بھی پِلا دی
اب سخت ہیں پشیماں کارِ ثواب کر کے
یوں دلکش...