سایۂ گل سے بہر طور جدا ہو جانا
راس آیا نہ مجھے موجِ صبا ہو جانا
اپنا ہی جسم مجھے تیشۂ فرہاد لگا
میں نے چاہا تھا پہاڑوں کی صدا ہو جانا
موسمِ گل کے تقاضوں سے بغاوت ٹھہرا
قفسِ غنچہ سے خوشبو کا رہا ہو جانا
قصرِ آواز میں اک حشر جگا دیتا ہے
اس حسیں شخص کا تصویر نما ہو جانا
راہ کی گرد سہی، مائلِ...