جس طرح کوئی کہے۔۔۔
اور ترے شہر سے جب رختِ سفر باندھ لیا
در و دیوار پہ حسرت کی نظر کیا کرتے
چاند کجلائی ہوئی شام کی دہلیز پہ تھا
اس گھڑی بھی ترے مجبورِ سفر کیا کرتے
دل ٹھہر جانے کو کہتا تھا مگر کیا کرتے
"ہم نے جب وادئ غربت میں قدم رکھا تھا"
جس طرح یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو
کچھ اسی طرح کی...
مرثیہ
وہ زخمِ انتظار کی لذّت بھی دے گیا
اب نامہ بر کی راہ نہ دیکھا کریں گے ہم
وہ کس طرح ملا تھا جدا کیسے ہو گیا
سوچا تھا یہ سوال نہ سوچا کریں گے ہم
اے زندگی جب اس سے وفا کر سکی نہ تو
پھر تُو بتا کہ تجھ سے وفا کیا کریں گے ہم
٭٭٭
بن باس کی ایک شام۔۔۔
یہ آخری ساعت شام کی ہے
یہ شام جو ہے مہجوری کی
یہ شام اپنوں سے دوری کی
اس شام افق کے ہونٹوں پر
جو لالی ہے زہریلی ہے
اس شام نے میری آنکھوں سے
صہبائے طرب سب پی لی ہے
یہ شام غَضب تنہائی کی
پت جڑ کی ہوا برفیلی ہے
اس شام کی رنگت پیلی ہے
اس شام فقط آواز تری
کچھ ایسے سنائی دیتی...
السلام علیکم!
احمد فراز کی نظمیں
ٹائپنگ کا دوسرا زینہ
"پسِ انداز موسم" سے انتخاب
استادِ محترم الف عین صاحب
فاتح بھائی
قیصرانی بھائی
مقدس آپی
نوٹ: تبصرہ جات کے لئے یہ دھاگہ استعمال کیا جائے۔
>>> day = "Thursday"
>>> day # write variable name and hit "Enter"
'Thursday'
یہ کوڈ بھی پائتھون میں نہیں چلا رہا ہے۔
کیا
>>> day = "Thursday"
>>> day # write variable name and hit "Enter"
'Thursday'
اس ویلیو کا پائتھون سے کوئی تعلق نہیں ہے؟