پسِ انداز موسم نے نظموں کا انتخاب۔۔۔احمد فراز

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بن باس کی ایک شام۔۔۔

یہ آخری ساعت شام کی ہے
یہ شام جو ہے مہجوری کی
یہ شام اپنوں سے دوری کی

اس شام افق کے ہونٹوں پر
جو لالی ہے زہریلی ہے
اس شام نے میری آنکھوں سے
صہبائے طرب سب پی لی ہے
یہ شام غَضب تنہائی کی
پت جڑ کی ہوا برفیلی ہے
اس شام کی رنگت پیلی ہے
اس شام فقط آواز تری
کچھ ایسے سنائی دیتی ہے
آواز دکھائی دیتی ہے

یہ آخری ساعت شام کی ہے
یہ شام بھی تیرے نام کی ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مرثیہ

وہ زخمِ انتظار کی لذّت بھی دے گیا
اب نامہ بر کی راہ نہ دیکھا کریں گے ہم

وہ کس طرح ملا تھا جدا کیسے ہو گیا
سوچا تھا یہ سوال نہ سوچا کریں گے ہم

اے زندگی جب اس سے وفا کر سکی نہ تو
پھر تُو بتا کہ تجھ سے وفا کیا کریں گے ہم
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جس طرح کوئی کہے۔۔۔

اور ترے شہر سے جب رختِ سفر باندھ لیا
در و دیوار پہ حسرت کی نظر کیا کرتے
چاند کجلائی ہوئی شام کی دہلیز پہ تھا
اس گھڑی بھی ترے مجبورِ سفر کیا کرتے
دل ٹھہر جانے کو کہتا تھا مگر کیا کرتے

"ہم نے جب وادئ غربت میں قدم رکھا تھا"
جس طرح یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو
کچھ اسی طرح کی کیفیتِ جاں آج بھی ہے
جس طرح کوئی قیامت ہو گزر جانے کو
جس طرح کوئی کہے پھر سے پلٹ آنے کو
(واشنگٹن)
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شہر نامہ
(اوجڑی کیمپ کے حوالے سے)

وہ عجیب صبحِ بہار تھی
کہ سحر سے نوحہ گری رہی
مری بستیاں تھیں دُھواں دُھواں
مرے گھر میں آگ بھری رہی

مرے راستے تھے لہو لہو
مرا قریہ قریہ فگار تھا
یہ کفِ ہوا پہ زمین تھی
وہ فلک کہ مشتِ غبار تھا

کئی آبشار سے جسم تھے
کہ جو قطرہ قطرہ پگھل گئے
کئی خوش جمال طلسم تھے
جہیں گرد باد نگل گئے

کوئی خواب نوکِ سناں پہ تھا
کوئی آرزو تہِ سنگ تھی
کوئی پھُول آبلہ آبلہ
کوئی شاخ مرقدِ رنگ تھی

کئی لاپتہ میری لعبتیں
جو کسی طرف کی نہ ہو سکیں
جو نہ آنے والوں کے ساتھ تھیں
جو نہ جانے والوں کو رو سکیں

کئی تار ساز سے کٹ گئے
کسی مطربہ کی رگِ گلو
مئے آتشیں میں وہ زہر تھا
کہ تڑخ گئے قدح و سبو

کوئی نَے نواز تھا دم بخود
کہ نفس سے حدّتِ جاں گئی
کوئی سر بہ زانو تھا باربدؔ
کہ صدائے دوست کہاں گئی

کہیں نغمگی میں وہ بَین تھے
کہ سماعتوں نے سُنے نہیں
کہیں گونجتے تھے وہ مرثیے
کہ انیسؔ نے بھی کہے نہیں

یہ جو سنگ ریزوں کے ڈھیر ہیں
یہاں موتیوں کی دکان تھی
یہ جو سائبان دھوئیں کے ہیں
یہاں بادلوں کی اڑان تھی

جہاں روشنی ہے کھنڈر کھنڈر
یہاں قمقموں سے جوان تھے
جہاں چیونٹیاں ہوئیں خیمہ زن
یہاں جگنوؤں کے مکان تھے

کہیں آبگینہ خیال کا
کہ جو کربِ ضبط سے چور تھا
کہیں آئینہ کسی یاد کا
کہ جو عکسِ یار سے دور تھا

مرے بسملوں کی قناعتیں
جو بڑھائیں ظلم کے حوصلے
مرے آہوؤں کا چکیدہ خوں
جو شکاریوں کو سراغ دے

مری عدل گاہوں کی مصلحت
مرے قاتلوں کی وکیل ہے
مرے خانقاہوں کی منزلت
مری بزدلی کی دلیل ہے

مرے اہلِ حرف و سخن سرا
جو گداگروں میں بدل گئے
مرے ہم صفیر تھے حیلہ جُو
کسی اور سمت نکل گئے

کئی فاختاؤں کی چال میں
مجھے کرگسوں کا چلن لگا
کئی چاند بھی تھے سیاہ رو
کئی سورجوں کو گہن لگا

کوئی تاجرِ حَسَب و نَسَب
کوئی دیں فروشِ قدیم ہے
یہاں کفش بر بھی امام ہیں
یہاں نعت خواں بھی کلیم ہے

کوئی فکر مند کلاہ کا
کوئی دعویٰ دار قبا کا ہے
وہی اہلِ دل بھی ہیں زیب تن
جو لباس اہلِ ریا کا ہے

مرے پاسباں ، مرے نقب زن
مرامُلک مِلکِ یتیم ہے
مرا دیس میرِ سپاہ کا
مرا شہر مالِ غنیم ہے

جو روش ہے صاحبِ تخت کی
سو مصاحبوں کا طریق ہے
یہاں کوتوال بھی دُزدِ شب
یہاں شیخِ دیں بھی فریق ہے

یہاں سب کے نرخ جدا جدا
اسے مول لو اسے تول دو
جو طلب کرے کوئی خوں بہا
تو دہن خزانے کا کھول دو

وہ جو سرکشی کا ہو مرتکب
اسے قمچیوں سے زبوں کرو
جہاں خلقِ شہر ہو مشتعل
اسے گولیوں سے نگوں کرو

مگر ایسے ایسے غنی بھی تے
اسی قحط زارِ دمشق میں
جنہیں کوئے یار عزیز تھا
جو کھڑے تھے مقتلِ عشق میں

کوئی بانکپن میں تھا کوہکن
تو جنوں میں قیس سا تھا کوئی
جو صراحیاں لیے جسم کی
مئے ناب خوں سے بھری ہوئی

تھے صدا بلب کہ پیو پیو
یہ سبیل اہلِ صفا کی ہے
یہ نشید نوشِ بدن کرو
یہ کشید تاکِ وفا کی ہے

کوئی تشنہ لب ہی نہ تھا یہاں
جو پکارتا کہ اِدھر اِدھر
سبھی مفت بر تے تماش بیں
کوئی بزم میں کوئی بام پر

سبھی بے حسی کے خمار میں
سبھی اپنے حال میں مست تھے
سبھی رہروانِ رہِ عدم
مگر اپنے زعم میں ہست تھے

سو لہو کے جام انڈیل کر
مرے جانفروش چلے گئے
وہ سکوت تھا سرِ میکدہ
کہ وہ نم بدوش چلے گئے

کوئی محبسوں میں رسن بہ پا
کوئی مقتلوں میں دریدہ تن
نہ کسی کے ہاتھ میں شاخِ نَے
نہ کسی کے لب پہ گُلِ سخن

اسی عرصۂ شبِ تار میں
یونہی ایک عمر گزر گئی
کبھی روزِ وصل بھی دیکھتے
یہ جو آرزو تھی وہ مر گئی

یہاں روزِ حشر بپا ہوئے
پہ کوئی بھی روزِ جزا نہیں
یہاں زندگی بھی عذاب ہے
یہاں موت میں بھی شفا نہیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کر گئے کوچ کہاں

اتنی مدّت دِل آوارہ کہاں تھا کہ تجھے
اپنے ہی گھر کے در و بام بھلا بیٹھے ہیں
یاد یاروں نے تو کب حرفِ محبت رکھا
غیر بھی طعنہ و دشنام بھلا بیٹھے ہیں

تو سمجھتا تھا کہ یہ در بدری کا عالم
دور دیسوں کی عنایت تھا سو اب ختم ہوا
تو نے جانا تھا کہ آشفتہ سَری کا موسم
دشتِ غربت کی ودیعت تھا سو اب ختم ہوا

اب جو تو شہرِ نگاراں میں قدم رکھے گا
ہر طرف کھلتے چلے جائیں گے چہروں کے گلاب
دوست احباب ترے نام کے ٹکرائیں گے جام
غیر اغیار چُکائیں گے رقابت کے حساب

جب بھی گائے گی کوئی غیرتِ ناہید غزل
سب کو آئے گا نظر شعلۂ آواز میں تُو
جب بھی ساقی نے صراحی کو دیا اِذنِ خرام
بزم کی بزم پکارے گی کہ آغاز میں تُو

مائیں رکّھیں گی ترے نام پہ اولاد کا نام
باپ بیٹوں کے لیے تیری بیاضیں لیں گے
جن پہ قدغن ہے وہ اشعار پڑھے کی خلقت
اور دُکھتے ہوئے دل تجھ کو سلامی دیں گے

لوگ الفت کے کھلونے لیے بچّوں کی طرح
کل کے روٹھے ہوئے یاروں کو منا لائیں گے
لفظ کو بیچنے والے نئے بازاروں میں
غیرتِ حرف کو لاتے ہوئے شرمائیں گے

لیکن ایسا نہیں ایسا نہیں اے دل اے دل
یہ تیرا دیس یہ تیرے در و دیوار نہیں
اتنے یوسف تو نہ تھے مصر کے بازار میں بھی
جنس اس درجہ ہے وافر کے خریدار نہیں

سر کسی کا بھی دکھائی نہیں دیتا ہے یہاں
جسم ہی جسم ہے دستاریں ہی دستاریں ہیں
تو کسی قریۂ زنداں میں ہے شاید کے جہاں
طوق ہی طوق ہیں دیواریں ہی دیواریں ہیں

اب نہ طفلاں کو خبر ہے کسی دیوانے کی
اور نہ آواز کہ "او چاک گریباں والے"
نہ کسی ہاتھ میں پتھر نہ کسی ہاتھ میں پھول
کر گئے کوچ کہاں کوچۂ جاناں والے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ابھی ہم خوبصورت ہیں
(احمد شمیم کی یاد میں)

ہمارے جسم اوراقِ خزانی ہو گئے ہیں
اور ردائے زخم سے آراستہ ہیں
پھر بھی دیکھو تو
ہماری خوشنمائی پر کوئی حرف
اور کشیدہ قامتی میں خم نہیں آیا
ہمارے ہونٹ زہریلی رُتوں سے کاسنی ہیں
اور چہرے رتجگوں کی شعلگی سے
آبنوسی ہو چکے ہیں
اور زخمی خواب
نادیدہ جزیروں کی زمیں پر
اس طرح بکھرے پڑے ہیں
جس طرح طوفاں زدہ کشتی کے ٹکڑوں کو
سمندر ساحلوں پر پھینک دیتا ہے
لہو کی بارشیں
یا خودکشی کی خواہشیں تھیں
اس اذیت کے سفر میں
کون سا موسم نہیں آیا
مگر آنکھوں میں نم
لہجے میں سم
ہونٹوں پہ کوئی نغمۂ ماتم نہیں آیا
ابھی تک دل ہمارے
خندۂ طفلاں کی صورت بے کدورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں

زمانے ہو گئے
ہم کوئے جاناں چھوڑ آئے تھے
مگر اب بھی
بہت سے آشنا نا آشنا ہمدم
اور ان کی یاد کے مانوس قاصد
اور ان کی چاہتوں کے ہجر نامے
دور دیسوں سے ہماری اور آتے ہیں
گلابی موسموں کی دُھوپ
جب نو رُستہ سبزے پر قدم رکھتی ہوئی
معمورۂ تن میں در آتی ہے
تو برفانی بدن میں
جوئے خوں آہستگی سے گنگناتی ہے
اُداسی کا پرندہ
چپ کے جنگل میں
سرِ شاخِ نہالِ غم چہکتا ہے
کوئی بھولا ہوا بِسرا ہوا دکھ
آبلہ بن کر تپکتا ہے
تو یوں لگتا ہے
جیسے حرف اپنے
زندہ آوازوں کی صورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں

ہماری خوشنمائی رفِ حق کی رونمائی ہے
اسی خاطر تو ہم آشفتہ جاں
عشّاق کی یادوں میں رہتے ہیں
کہ جہ اُن پر گزرتی ہے وہ کہتے ہیں
ہماری حرف سازی
اب بھی محبوبِ جاں ہے
شاعری شوریدگانِ عشق کے وردِ زباں ہے
اور گلابوں کی طرح شاداب چہرے
لعل و مرجاں کی طرح لب
صندلیں ہاتھوں سے
چاہت اور عقیدت کی بیاضوں پر
ہمارے نام لکھتے ہیں
سبھی درد نا آشنا
ایثار مشرب
ہم نفس اہلِ قفس
جب مقتلوں کی سمت جاتے ہیں
ہمارے بیت گاتے ہیں
ابھی تک ناز کرتے ہیں
سب اہلِ قافلہ
اپنے حدی خوانوں پر آشفتہ کلاموں پر
ابھی ہم دستخط کرتے ہیں اپنے قتل ناموں پر
ابھی ہم آسمانوں کی امانت
اور زمینوں کی ضرورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے

تمہاری پوروں کا لمس ابھی تک
مری کفِ دست پر ہے
اور میں یہ سوچتا ہوں
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے
وہ کہہ گئے تھے
کہ اب کے جو ہاتھ تیرے ہاتھوں کو چھو گئے ہیں
تمام ہونٹوں کے سارے لفظوں سے معتبر ہیں
وہ کہہ گئے تھے
تمہاری پوریں
جو میرے ہاتھوں کو چھو رہی تھیں
وہی تو قسمت تراش ہیں
اور اپنی قسمت کو
سارے لوگوں کی قسمتوں سے بلند جانو
ہماری مانو
تو اَب کسی اور ہاتھ کو ہاتھ مت لگانا
میں اس سمے سے
تمام ہاتھوں
وہ ہاتھ بھی
جن میں پھول
شاخوں سے بڑھ کے لطفِ نمو اٹھائیں
وہ ہاتھ بھی جو سدا کے محروم تھے
اور ان کی ہتھیلیاں زخم زخم تھیں
اور وہ ہاتھ بھی جو چراغ جیسے تھے
اور رستے میں سنگ فرسنگ کی طرح جا بجا گڑے تھے
وہ ہاتھ بھی
جن کے ناخنوں کے نشان
معصوم گردنوں پر مثالِ طوقِ ستم پڑے تھے
تمام نا مہرباں اور مہربان ہاتھوں سے
دست کش یوں ہو رہا تھا جیسے
یہ مٹھّیاں میں نے کھول دیں تو
وہ ساری سچّائیوں کے موتی
مسرّتوں کے تمام جگنو
جو بے یقینی کے جنگوں میں
یقین کا راستہ بناتے ہیں
روشنی کی لکیر کا قافلہ بناتے ہیں
میرے ہاتھوں سے روٹھ جائیں گے
پھر نہ تازہ ہوا چلے گی
نہ کوئی شمعِ صدا جلے گی
میں ضبط اور انتظار کے اس حصار میں مدتوں رہا ہوں
مگر جب اک شام
وہ پت جھڑ کی آخری شام تھی
ہوا اپنا آخری گیت گا رہی تھی
مرے بدن میں مرا لہو خشک ہو رہا تھا
تو مٹھّیاں میں نے کھول دیں
اور میں نے دیکھا
کہ میرے ہاتھوں میں
کوئی جگنو
نہ کوئی موتی
ہتھیلیوں پر فقط مری نامراد آنکھیں دھری ہوئی تھیں
اور ان میں
قسمت کی سب لکیریں مری ہوئی تھیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اے میرے وطن کے خوش نواؤ!
(واشنگٹن میں پاکستانی شعراء کی آمد کے موقع پر لکھی گئی)

اک عمر کے بعد تم ملے ہو
اے میرے وطن کے خوش نواؤ
ہر ہجر کا دن تھا حشر کا دن
دوزخ تھے فراق کے الاؤ
روؤں کے ہنسوں سمجھ نہ آئے
ہاتھوں میں ہیں پھول دل میں گھاؤ

تم آئے تو ساتھ ہی تمہارے
بچھڑے ہوئے یار یاد آئے
اک زخم پہ تم نے ہاتھ رکھا
اور مجھ کو ہزار یاد آئے
وہ سارے رفیق پا بجولاں
سب کشتۂ دار یاد آئے

ہم سب کا ہے ایک ہی قبیلہ
اک دشت کے سارے ہم سفر ہیں
کچھ وہ ہیں جو دوسروں کی خاطر
آشفتہ نصیب و دربدر ہیں
کچھ وہ ہیں جو خلعت و قبا سے
ایوانِ شہی میں معتبر ہیں

سقراط و مسیح کے فسانے
تم بھی تو بہت سنا رہے تھے
منصور و حسین سے عقیدت
تم بھی تو بہت جتا رہے تھے
کہتے تھے صداقتیں اَمر ہیں
اَوروں کو یہی بتا رہے تھے

اور اب جو ہیں جا بجا صلیبیں
تم بانسریاں بجا رہے ہو
اور اب جو ہے کربلا کا نقشہ
تم مدحِ یزید گا رہے ہو
جب سچ تہہِ تیغ ہو رہا ہے
تم سچ سے نظر چُرا رہے ہو

جی چاہتا ہے کہ تم سے پوچھوں
کیا راز اس اجتناب میں ہے
تم اتنے کٹھور تو نہیں تھے
یہ بے حسی کس حساب میں ہے
تم چپ ہو تو کس طرح سے چپ ہو
جب خلقِ خدا عذاب میں ہے

سوچو تو تمہیں ملا بھی کیا ہے
اِک لقمۂ تر کی قیمت
غیرت کی فروخت کرنے والو
اک کاسۂ زَر قلم کی قیمت
پندار کے تاجرو بتاؤ
دربان کا در قلم کی قیمت

ناداں تو نہیں ہو تم کہ سمجھوں
غفلت سے یہ زہر گھولتے ہو
تھامے ہوئے مصلحت کی میزاں
ہر شعر کا وزن تولتے ہو
ایسے میں سکوت، چشم پوشی
ایسا ہے کہ جھوٹ بولتے ہو

اک عمر س عقل و صدق کی لاش
غاصب کی صلیب پر جڑی ہے
اس وقت بھی تم غزل سرا ہو
جب ظلم کی ہر گھڑی کڑی ہے
جنگل پہ لپک رہے ہیں شعلے
طاؤس کو رقص کی پڑی ہے

ہے سب کو عزیز کوئے جاناں
اس راہ میں سب جئے مرے ہیں
خود میری بیاضِ شعر میں بھی
بربادئ دل کے مرثیے ہیں
میں نے بھی کیا ہے ٹوٹ کر عشق
اور ایک نہیں کئی کیے ہیں

لیکن غمِ عاشقی نہیں ہے
ایسا جو سبک سری سکھائے
یہ غم تو وہ خوش مآل غم ہے
جو کوہ سے جُوئے شیر لائے
تیشے کا ہنر جنوں کو بخشے
جو قیس کو کوہکن بنائے

اے حیلہ گرانِ شہرِ شیریں
آیا ہوں پہاڑ کاٹ کر میں
ہے بے وطنی گواہ میری
ہر چند پھرا ہوں در بدر میں
بیچا نہ غرورِ نَے نوازی
ایسا بھی نہ تھا سبک ہنر میں

تم بھی کبھی ہمنوا تھے میرے
پھر آج تمہیں یہ کیا ہُوا ہے
مٹی کے وقار کو نہ بیچو
یہ عہدِ ستم، جہاد کا ہے
دریوزہ گری کے مقبروں سے
زنداں کی فصیل خوشنما ہے


کب ایک ہی رُت رہی ہمیشہ
یہ ظلم کی فصل بھی کٹے گی
جب حرف کہے گا قم بہ اِذنی
مرتی ہوئی خاک جی اٹھے گی
لیلائے وطن کے پیرہن میں
بارود کی بُو نہیں رہے گی

پھر باندھیں گے ابروؤں کے دوہے
پھر مدحِ رخ و دہن کہیں گے
ٹھہرائیں گے ان لبوں کو مطلع
جاناں کے لیے سخن کہیں گے
افسانۂ یار و قصۂ دل
پھر انجمن انجمن کہیں گے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اے میرے سارے لوگو!

اب مرے دوسرے بازوپہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی مرا نصف بدن کاٹ چکی
اسی بندوق کی نالی ہے مری سمت کہ جو
اس سے پہلے مری شہ رگ کا لہو چاٹ چکی

پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں
پھر مرے شہر میں بارُود کی بُو پھیلی ہے
پھر سے "تُو کون ہے میں کون ہوں" آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میانِ من و تُو پھیلی ہے

مری بستی سے پرے بھی مرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر مری جانب لپکے
میرے سینے میں سدا اپنا ہی خنجر اترا

پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر ہوئیں عام وہی اہلِ ریا کی باتیں
نعرۂ حُبِّ وطن مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح دینِ خدا کی باتیں

اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبحِ وحشت کی طرح شامِ غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو پیمانِ وفا ٹوٹے تھے
شیشۂ دل کی طرح آئینۂ جاں کی طرح

پھر کہاں ہیں احمریں ہونٹوں پہ دعاؤں کے دیے
پھر کہاں شبنمیں چہروں پہ رفاقت کی ردا
صندلیں پاؤں سے مستانہ روی روٹھ گئی
مرمریں ہاتھوں پہ جل بُجھ گیا انگارِ حنا

دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ بازو کے لئے زلف کا بادل رویا
مثلِ پیراہنِ گل پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دونیم
نوکِ دشنہ سے کھچی تھی مری دھرتی پہ لکیر

آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
اے مرے سوختہ جانو مرے پیارے لوگو
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر مرے درد کے مارے لوگو
کیسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا مرے سارے لوگو
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نامۂ جاناں

مدتوں بعد ملا نامۂ جاناں لیکن
نہ کوئی دل کی حکایت نہ کوئی پیار کی بات
نہ کسی حرف میں محرومئ جاں کا قصّہ
نہ کسی لفظ میں بھولے ہوئے اقرار کی بات
نہ کسی سطر پہ بھیگے ہوئے کاجل کی لکیر
کہ کہیں ذکر جدائی کا نہ دیدار کی بات

بس وہی ایک مضموں، کہ مرے شہر کے لوگ
کیسے سہمے ہوئے رہتے ہیں گھروں میں اپنے
اتنی بے نام خموشی ہے کہ دیوانے بھی
کوئی سودا نہیں رکھتے سروں میں اپنے
اب قفس ہی کو نشیمن کا بدل جان لیا
اب کہاں طاقتِ پرواز پروں میں اپنے

وہ جو دو چار سُبو کش تھے کہ جن کے دم سے
گردشِ جام بھی تھی رونقِ میخانہ بھی تھی
وہ جو دو چار نوا گر تھے کہ جن کے ہوتے
حرمتِ نغمہ بھی تھی جرأتِ رندانہ بھی تھی
کوئی مقتل کوئی زنداں کوئی پردیس گیا
چند ہی تھے کہ روش جن کی جداگانہ تھی

اب تو بس بردہ فروشی ہے جدھر بھی جاؤ
اب تو ہر کوچہ و کُو مصر کا بازار لگے
سرِ دربار ستادہ ہیں بیاضیں لے کر
وہ جو کچھ دوست کبھی صاحبِ کردار لگے
غیرتِ عشق کہ کل مالِ تجارت میں نہ تھی
آج دیکھو تو ہیں انبار کے انبار لگے

ایسا آسیب زدہ شہر کہ دیکھا نہ سنا
ایسی دہشت ہے کہ پتھر ہوئے سب کے بازو
در و دیوارِ خرابات وہی ہیں لیکن
نہ کہیں قلقلِ مینا ہے نہ گل بانگِ سبو
بے دلی شیوۂ اربابِ محبت ٹھہرا
اب کوئی آئے کہ جائے "تَنَنا ہُو یا ہُو"
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مسندِ پیرِ مغاں

اُڑا کے بادِ فنا لے گئی ہے شہر کا شہر
نہ بام و در رہے باقی نہ جسم و جاں میرے
کسے کسے میں پکاروں کسے کسے روؤں
تڑپ رہے ہیں شناسا کہاں کہاں میرے

کسی کا کاسۂ سر ہے فضا میں سر گرداں
کوئی نگارِ دل آرا و دو نیم ہو کے گرا
تڑخ گیا ہے کسی کا بدن صراحی سا
کسی کا شیشۂ جاں دستِ ناتواں سے گرا

دلوں پہ برق گری سنگِ محتسب کی طرح
نہ کوئی رند نہ رطلِ گراں سلامت ہے
بساطِ میکدہ ویراں ہوئی تو غم کیسا
خوشا کہ مسندِ پیرِ مغاں سلامت ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بیادِ فیض

قلم بدست ہوں حیران ہوں کہ کیا لکھوں
میں تیری بات کے دنیا کا تذکرہ لکھوں

لکھوں کہ تُو نے محبت کی روشنی لکھی
ترے سخن کو ستاروں کا قافلہ لکھوں

جہاں یزید بہت ہوں، حسین اکیلا ہو
تو کیوں نہ اپنی زمیں کو بھی کربلا لکھوں

ترے بغیر ہے ہر نقش "نقشِ فریادی"
تو پھول "دستِ صبا" پر ہے آبلہ لکھوں

مثالِ "دستِ تہہِ سنگ" تھی وفا ان کی
سو کس طرح انہیں یارانِ با صفا لکھوں

حدیثِ کوچۂ قاتل ہے نامۂ زنداں
سو اس کو قصۂ تعزیرِ ناروا لکھوں

جگہ جگہ ہیں "صلیبیں مرے دریچے میں"
سو اسمِ عیسیٰ و منصور جا بجا لکھوں

گرفتہ دل ہے بہت "شامِ شہر یاراں" آج
کہاں ہے تُو کہ تجھے حالِ دلبرا لکھوں

کہاں گیا ہے "مرے دل مرے مسافر" تُو
کہ میں تجھے رہ و منزل کا ماجرا لکھوں

تو مجھ کو چھوڑ گیا لکھ کے "نسخہ ہائے وفا"
میں کس طرح تجھے اے دوست بے وفا لکھوں

"شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں"
خدا نکردہ کہ میں تیرا مرثیہ لکھوں
٭٭٭​
نوٹ:
استادِ محترم الف عین صاحب، اس مصرع کے لئے
جہاں یزید بہت ہوں، حسین اکیلا ہو​
مجھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مختصر شکل نہیں ملی، لہٰذا آپ ڈال دیجیے گا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
پردیس میں جاتے سال کی آخری رات

جاتے سال کی آخری شب ہے
چہل چراغ کی روشنیوں سے
بادۂ گلگلوں کی رنگت سے
جگر جگر کرتے پیمانے
جیسے جاتے سال کی گھڑیاں
پون سے دیپ کی آخری قُربت
جیسے دید کی آخری ساعت
جلتی بُجھتی سی پھلجڑیاں
آؤ آخری رات ہے سال کی
دل کہتا ہے شوق وصال کی
سب شمعیں ساری خوشبوئیں
تن من میں رس بس جانے دو
دیکھو آج کی رات ستارے
گُم صُم ہیں آکاش کنارے
جاگ رہے ہیں سوچ رہے ہیں
جاتے سال کی آخری شب ہے
کل کا سورج کیسا ہو گا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ابو جہاد

ابو جہاد مرا دل لہو لہو ہے مگر
معاف کر کہ ترے دشمنوں کے ساتھ ہیں ہم
ترا جنوں ترا ایثار محترم لیکن
جو سچ کہوں تو ترے قاتلوں کے ساتھ ہیں ہم

ہمی تو ہیں وہ ستمگر کہ مصلحت جن کی
دراز دستئ قاتل کا دل بڑھاتی ہے
ہم اس قبیلۂ عشاق سے نہیں کہ جنہیں
ندیمِ دوست سے خوشبوئے دوست آتی ہے

جو ترے دل میں تپکتا تھا آبلے کی طرح
وہی تو دُکھ ہے جو چھالا مری زبان کا ہے
ہم اک سناں کے ہدف ایک تیر کے بسمل
اگر ہے فرق تو بس ہاتھ یا کمان کا ہے

تُو دشتِ بے وطنی میں لہو لہان ہوا
ہم اپنے گھر میں ہی سینہ فگار پھرتے ہیں
غلام گردشِ زنداں سے صحنِ مقتل تک
ابھی رسن بہ گلو میرے یار پھرتے ہیں

وہ جس نے خون اچھالا ترے شہیدوں کا
اُسی کی تیغ ہمارے سروں پہ چمکی ہے
وہی تو ایک ہے جلّاد جس کے ہاتھوں نے
ہر اک چراغ سے چہرے کی لو قلم کی ہے

ابو جہاد ہمارا جہاد ایک سا ہے
وہ سر زمین تری ہو کہ سر زمیں میری
رہِ وفا میں ترا خوں بہے کہ میرا لہو
دریدہ ہو ترا دامن کہ آستیں میری

چلیں گے ساتھ رفاقت کے پرچموں کے لیے
جہاں جہاں سے بھی ساتھی ہمیں پکاریں گے
اگر ہے دشنہ و خنجر زبان قاتل کی
تو ہم بھی حرفِ وفا کی زرہ سنواریں گے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ہچ ہائیکر

میں کہ دو روز کا مہمان ترے شہر میں تھا
اب چلا ہوں تو کوئی فیصلہ کر بھی نہ سکوں
زندگی کی یہ گھڑی ٹوٹتا پل ہو جیسے
کہ ٹھہر بھی نہ سکوں اور گزر بھی نہ سکوں

مہرباں ہیں تری آنکھیں مگر اے مونسِ جاں
ان سے ہر زخمِ تمنّا تو نہیں بھر سکتا
ایسی بے نام مسافت ہو تو منزل کیسی
کوئی بستی ہو بسیرا ہی نہیں کر سکتا

ایک مُدّت ہوئی لیلائے وطن سے بچھڑے
اب بھی رِستے ہیں مگر زخم پرانے میرے
جب سے صرصر مرے گلشن میں چلی ہے تب سے
برگِ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے

آج اس شہر کل اُس شہر کا رستہ لینا
"ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے"
یہ سفر اتنا مسلسل ہے کہ تھک ہار کے بھی
"بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے"

تو بھی ایسا ہی دل آرام شجر ہے جس نے
مجھ کو اس دشتِ قیامت سے بچائے رکھا
ایک آشفتہ سر و آبلہ پا کی خاطر
کبھی زلفوں کبھی پلکوں کو بچھائے رکھا

دکھ تو ہر وقت تعاقب میں رہا کرتے ہیں
یوں پناہوں میں کہاں تک کوئی رہ سکتا ہے
کب تلک ریت کی دیوار سنبھالے کوئی
وہ تھکن ہے کہ مرا جسم بھی ڈھے سکتا ہے

اجنبی شہر نئے لوگ پرائی گلیاں
زندگی ایسے قرائن میں کٹے گی کیسے
تیری چاہت بھی مقدّس تری قربت بھی بہشت
دیس پردیس کی تفریق گھٹے گی کیسے

ناگزیر آج ہُوا جیسے بچھڑنا اپنا
کل کسی روز ملاقات بھی امکان میں ہے
میں یہ پیراہنِ جاں کیسے بدل سکتا ہوں
کہ ترا ہاتھ مرے دل کے گریبان میں ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ٹائپنگ مکمل
میڈیا فائر لنک

استادِ محترم الف عین صاحب
فاتح بھائی
قیصرانی بھائی
مقدس آپی

لیکن اس کتاب میں صرف 14 یا 15 نظمیں ہیں لہٰذا میرے خیال میں یہ بہتر ہو گا کہ پسِ انداز موسم اور کچھ دوسری کتابوں کو ایک جگہ کر دیا جائے اور فراز کی نظموں سے ہی کوئی عنوان رکھ لیا جائے۔
بہرحال اب دیکھتا ہوں کہ، اگلے مرحلے میں کس کی شروع کرنی ہے۔
 
Top