یاسر شاہ بھائی، اب دیکھیے گا ذرا۔
گھیرے ہوئے ہیں یوں تو/گرچہ ہزاروں خطر مجھے
ہرچند تیرگی میں ہیں لاکھوں خطر مجھے
تیرہ شبی ہے ایک نویدِ سحر مجھے
منزل کو دور جان کے گھبراؤں کس لیے
کافی ہے زادِ راہ کو خونِ جگر مجھے
جب سے اُڑائے جاتا ہے شوقِ وصالِ یار
ہیں مدتوں کے فاصلے بھی مختصر مجھے
لوٹ آتے...