شاہ جی ایسے کلام ٹھک سے دل میں پیوست ہوجاتے ہیں بالکل مچھلی کے کانٹے کی طرح بقول شاعر
تیری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا
دل اس کے ساتھ نکلے گا اگر یہ دل سے نکلے گا
دراصل شاعر جو کہہ رہا ہے وہ میرے دل کی آواز ہے شاعر نے خیالات و احساسات کو دُرِ منظوم کردیا ہے یہ خیالات و افکار ایسے ہیں کہ...
میں جب وجود کے حیرت کدے سے مل رہا تھا
مجھے لگا میں کسی معجزے سے مل رہا تھا..!
میں جاگتا تھا ، کہ جب لوگ سو چکے تھے تمام..!
چراغ مجھ سے ،مرے تجربے سے مل رہا تھا..!!
ہوس سے ہوتا ہوا آ گیا میں عشق کی سمت
یہ سلسلہ بھی اسی راستے سے مل رہا تھا .!!
خدا سے پہلی مُلاقات ہو رہی تھی مری..!
میں اپنے آپ...
قریبا دس سال پہلے جانے کا اتفاق ہوا تھا مقصد پیر بابا سوات کے مزاراقدس کی حاضری تھا ۔۔۔۔ کالام سیر کے لیے گئے تھے تو واپسی پر لگے ہاتھوں حاضری کی سعادت سے بھی بہرہ مند ہوگئے۔
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ویسے یہ بھی ادب کا ایک حصہ ہے اگر آپ انکار کرتے ہو تو آپکی مرضی نہ کریں لیکن اگر چرکین کا کلام ادب کا حصہ کہلا سکتا ہے تو یہ کیوں نہیں؟؟؟
کاشفی صاحب پرمزاح کی ریٹنگ سے کام نہیں چلے گا مجھے اس کی بہت تلاش ہے مہربانی فرماکر اپنے بزرگوں اور اہل علم حضرات سے جو کہ اہل زبان ہوں ان سے پوچھ کر ان کیڑوں کے نام مجھے ذاتی پیغام میں دیجئے گا
اہل سنت الجماعت کے نباض اور ترجمان ہیں عرفان مشہدی صاحب۔۔۔۔ اللہ تبارک تعالیٰ ان کو خضر کی سی عمرعطافرمائے اور ان کا شفیق سایہ ہم پر تا دیر قائم و دائم رکھے ۔۔۔۔۔ آمین ثم آمین
اس کرم کا نام نامی کیا ہے ہم لوگ تو اس طرح کے نام لیتے ہیں حرمل خرمل خیرا ڈبا کھیرا ۔۔۔۔ شرارت کی تندی و تیزی دیکھتے ہوئے دادا جان مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ فلاں نے کاٹا ہے
واہ شاہ جی واہ اس ضمن میں کیا خوبصورت کلام یکجا ہورہا ہے یہ در منثور اب در منظوم ہوتے جارہے ہیں اگر کسی اور دوست کو اس ضمن میں کچھ معلومات ہوں تو برائے مہربانی شریک محفل کریں
اوپر سب کو یکجا کرنے کی ضرورت اس لیئے پیش آئی کہ میں سمجھ رہا تھا کہ فراز کی غزل اور تابش دہلوی کی غزل ایک ہی ہے شائد عمر فاروق صاحب نے غلطی سے فراز کی غزل کو تابش دہلوی کے نام کردیا ہے لیکن یہ میری غلط فہمی تھی
تجھ پہ مری نظر پڑے، چہرہ بہ چہرہ، رو بہ رو
میں ترا غم بیاں کروں، نکتہ بہ نکتہ، مو بہ مو
میں تری دید کے لئے مثلِ صبا رواں دواں
خانہ بہ خانہ، دربہ در، کوچہ بہ کوچہ، کو بہ کو
ہجر میں تیرے خونِ دل آنکھ سے ہے مری رواں
دجلہ بہ دجلہ، یم بہ یم، چشمہ بہ چشمہ، جو بہ جو
یہ تری تنگئی دہن، یہ خطِ روئے...
کتاب تو م نہیں میرے خیال سے کتابچہ ہے اور غالبا سرگزشت ڈائجسٹ میں 1996 کے دوران ایک آرٹیکل کی شکل میں ڈاکٹر ساجد امجدنے اس کو ترتیب دیا تھا ۔۔۔۔۔ شاہ جی نے اس لنک کو اردو محفل میں ہی شیئر کیا تھا قریبا سال یا چھ مہینے پہلے ۔ میں نے جب پڑھا تو ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ تھا سو ایک دم پورے سیاق...
یارو اس طرح کی ایک کتاب میرے پاس بھی ہے غالبا سوسال سے تو زیادہ ہی پرانی ہوگی میں چاہتا ہوں کہ کوئی اس کو لکھ دے یا کوئی لائبریرین اس کو اس طرح لکھ دے کیا کوئی کرسکتا ہے ؟؟؟؟؟
نوٹ: ٹیگ ضرور کرنا ہے ورنہ مجھے پتہ نہ چلے گا