کرے دریا نہ پُل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اُس پار میرے
بہت دن گزرے اب دیکھ آؤں گھر کو
کہیں گے کیا در و دیوار میرے
وہیں سورج کی نظریں تھیں زیادہ
جہاں تھے پیڑ سایہ دار میرے
وہی یہ شہر ہے، تو اے شہر والو!
کہاں ہیں کوچہ و بازار میرے
تم اپنا حالِ مہجوری سناؤ
مجھے تو کھا گئے آزار میرے
جنہیں سمجھا...
رقم تھیں اپنے چہرے پرخراشیں
میں سمجھا آئینہ ٹوٹا پڑا ہے
یہ کیسی روشنی تھی میرے اندر
کہ مجھ پر دھوپ کا سایہ پڑا ہے
حواس و ہوش ہیں بیدار لیکن
ضمیر انسان کا سویا پڑا ہے
بدن شوقین کم پیراہنی کا
در و دیوار پر پردہ پڑا ہے
اٹھا تھا زندگی پر ہاتھ میرا
گریباں پر خود اپنے جا پڑا ہے
محبت آنسوؤں کے...
تم سے پہلے بھی
تم سے پہلے بھی کسی اور نے چاہا تھا مجھے
یہی باتیں یہی انداز وفا تھے اس کے
اس کے بھی سامنے تھے رسموں رواجوں کے عذاب
جتنے بھی خواب تھے سب آبلہ پا تھے اس کے
وہ بھی سر کش تھا بہت اپنے خیالوں کی طرح
حوصلے عشق میں مانندِ ہوا تھے اس کے
تم پہ بھی اتری ہیں یہ وحشتیں تازہ تازہ
موم سے تم...