شانِ نزول:
دیروز دورانِ مجلس ایک خبر نما افسانے پر تبصرہ فرماتے ہوئے حسن رحمن شدید جذباتی ہوگئے۔ عمومی دنوں میں وہ انتہائی ٹھنڈے مزاج کے انسان ہیں، لیکن کمزور لمحے سبھی انسانوں پر آتے ہیں۔ اسی جذباتی گفتگو کے دوران انہوں نے انتہائی سنجیدگی سے بیان دیا کہ انسان اگر ٹماٹر خریدنے کی بھی کہانی بیان...
بس آپا یہ ساری باتیں ہی تکلیف دیتی ہیں۔۔۔ امید کی قندیلیں بجھتی جاتی ہیں۔۔۔۔ کیا کریں۔۔۔۔
آپ کی شفقت اور محبت ہمیشہ سے ساتھ رہی ہے۔۔۔ اس پر جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے۔۔۔
یہ تحریر لکھی اکتیس دسمبر کو لکھنا شروع کی اور یکم جنوری کو ختم کی۔ تاہم شائع نہ کر سکا۔ کچھ منتشر خیالی اور سال نو کا آغاز بھی انتشار اور تخریب کا امتزاج رہا۔ ارادہ یہ تھا کہ تحریر میں کوئی ربط پیدا کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس کو بہتر کروں گا۔ وہ نہ کر سکا۔ نہ بہتر ہو سکی۔ اور خیر، ابھی کافی بھی...
کرنا خدا کا یوں ہوا کہ آج صبح ہوئی۔۔۔ سال کا آخری سے پہلا دن تھا۔۔۔ میں نے سوچا کہ اس قیمتی دن ایسا کیا کروں کہ امر ہوجاؤں۔۔۔۔ پورا دن گزر گیا کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔۔۔ اب ایک گھسا پٹا مراسلہ لکھ رہا ہوں تاکہ کل کلاں یاد رہے کہ سال کے اس دن یہ مراسلہ لکھا تھا۔۔۔ خیر یہ تو ہو گئی سنجیدہ باتیں۔۔۔
اب...