دل کو دلدل سے تشبیہ دی ہے کہ جیسے دلدل دھنساتی چلی جاتی ہے ویسے یہ دل سموتا چلاجاتا ہے۔
چونکہ بات دل کی چل رہی تھی اس لیے دھنسانا عجیب سا لگ رہا تھا ورنہ وزن دونوں کا فعولن ہے۔
شب تو ہے سکوں بخش ، مگر دل میں ہے ہلچل
بے ابر فضا ہے ، مگر آنکھوں میں ہیں بادل
آنکھیں جو ہوئیں چار سیاہی سے ہیں دوچار
یاں تیرگی غم کی ہے تو واں حسن کا کاجل
اک پل نہ ملا کیف ہمیں وصل سے پہلے
اب درد کی لذت میں مگن ہوگئے ہر پل
توبہ کے مقابل نہ ٹکیں کافر ادائیں
ہر حسنِ صنم دل کی نظر سے ہوا اوجھل...
میرے خیال میں اس سے ملتا جلتا مشہور وزن اس کے آخر میں ایک سبب خفیف کے اضافے کے ساتھ یہ ہے:
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
یارب! دل مسلم کو
وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے
جو روح کو تڑپا دے
ارکان ممکن ہے یوں ہوں یا یوں ہوں: مفعول فعولن مفعولات مفاعیلن
میں اک اچھا بچہ ہوں
قول و عمل کا سچا ہوں
باتیں سچی کرتا ہوں
محنت اچھی کرتا ہوں
استاد ، ابو اور امی
مجھ سے کرتے ہیں نرمی
روز کا میرا ہے معمول
شوق سے جاتا ہوں اسکول
کوشش کرتا ہوں اکثر
مجھ سے خوش ہو ہر ٹیچر
رستہ بھی ہے میرا صاف
بستہ بھی ہے میرا صاف
یونی فارم جو میرا ہے
بے حد صاف اور ستھرا ہے...