مری گفتار میں پنہاں سمندر کی روانی ہے
سکوں سمجھے ہو تم جس کو وہ طوفاں کی نشانی ہے
نشانہ تیرِ نگہہ کا، محبت کی نشانی ہے
ترا لال آنکھ کا دیدہ مرا دل خوں فشانی ہے
تجھے پچپن میں بھی چاہوں کا پر یہ دن کہاں ہوں گے
بڑھاپا تو بڑھاپا ہے، جوانی تو جوانی ہے
کہو ہو تم نہ دل دو گے، اگر یہ ہی ارادہ ہے
سنو اِس...