سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
اُسکی وہ جانے اُسےپاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
سلسلے توڑ...