قرآن و حدیث زمین کے مرکز ہونے بارے کیا کہتے ہیں یہ مسئلہ نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ کئی مسلمانوں نے ماڈرن زمانے میں بھی ان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ یہ تھیسس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتا ہے
بھائی ذراعقل کے ناخن لو۔ مسئلہ اس طرح کے تھیسس کا نہیں آپ کے سوچ کا ہے۔ دوسروں کے تھیسس دیکھ کر ان کو پورے دین پر فِٹ کرنا کون ساطریقۂ استدلال ہے؟
آپ کو چاہیے اس طرح کے مقالے صاحبِ مقالہ سے ڈسکس کیا کریں۔
آصف بھائی، معذرت چاہتا ہوں مگر یہ بات آپ غلط کر رہے ہیں۔ مسلمان ہم بھی ہیں۔ اس پر گفتگو ہم سے بھی کی جا سکتی ہے اور ہمیں مسئول بھی ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر ہم انکار کریں تو زبردستی نہیں کی جا سکتی۔
مجھے آپ کے اس خیال سے بالکل اتفاق نہیں کہ اس پر بات صرف صاحبَ مقالہ سے ہونی چاہیے۔ یہ سماجی حوالے سے بڑی غیرفطری سی بات ہے۔ ایسا زمانے میں کہیں نہیں ہوتا۔ بات کرنے پر تو پابندی نہ لگائیے نا!
راحیل فاروق میں نے مذکورہ آیت و حدیث کی "صحیح" تشریح نہیں مانگی، صرف ایک حوالہ دیا تھا جسے آپ جس مرضی رخ پر موڑ کر سائنسی یا غیر سائنسی ثابت کر سکتے ہیں۔ ارتقا کو بندروں سے منسوب کرنا کوئی آج کی بات نہیں، مسلمان مفکرین کا پرانا وطیرہ ہے۔ میں نے اس ضمن میں ایک لڑی بھی بنائی تھی جہاں کے پی کے کی سائنسی درسی کتب میں ارتقا کو عقیدت کے نام پر جھوٹا کہا گیا تھا۔ وہ لڑی چند منٹوں میں غائب ہو گئی۔
یہ بات صرف زیک اور ان جیسے ”مفکرین“ کے لیے ہے۔ اعتراض کرنا الگ بات ہے اعتراض تھوپنا الگ۔
میں دراصل دو تین برسوں سے زیک اور ان کے ہم نوا ؤں کا یہ ڈرامہ دیکھ رہاہوں۔ ان کو رات اس وقت تک نیند نہیں آتی جب تک مسلمانوں کے جذبات وعقائد کو ٹھیس نہ پہنچائے۔ انسانیت کے یہ بزعمِ خود ”خیرخواہ“ کچھ ایسے اسلاموفوبیا کا شکار ہے جس نے ان کے نفسیات کو زیروزبر کردیاہے۔
آصف اثر جب سائنس نظریہ ارتقا کو مانتی ہے تو آپ لوگ عقیدہ کو بنیاد بنا کر سائنسی نظریات کو ٹھیس نہیں پہنچا رہے۔۔؟ کیا اسے سائنس فوبیا کا نام دیا جا سکتا ہے۔۔؟
آصف اثر اسلاموفوبیا ایک مضحکہ خیز اصطلاح ہے۔یہاں مغرب میں اگر کوئی مسلمان بھی دیگر مسلمانوں کے رویوں پر تنقید کرے تو اسے اسلامو فوب بنا دیا جاتا ہے۔ بھلا ایک جدی پشتی مسلمان کو اسلام سے کیا فوبیا ہوگا۔
عارف یہ نظریات صاحبِ مقالہ کے تھے اسلام کے نہیں۔ زیک نے اسے یہاں پوسٹ ہی اس بنیاد پر کیا کہ اس میں قرآن کے حوالے دیے گیے تھے لہذا اس نے اپنی پیاس بجھانا ضروری سمجھا۔ایسا موقع بھلا وہ کیوں ضائع کرتا۔۔۔!
یہ آصف اثر کی اختراع ہے کہ یہ پوسٹ کرنے کا مقصد اسلام کی تضحیک تھی۔ اسلام، سائنس اور یونیورسٹی کی تضحیک تو مقالہ نگار اور اس کے پروفیسر نے کی ہے۔ میں تو حیران ہوں کہ بات یہاں تک پہنچی کیسے
یہی وہ گم شدہ کڑی تھی جو آپ کو مل گئی۔ ماڈرن بیالوجی کو وجود دینے کے لیے نظریۂ ارتقاء گھڑا گیا۔جیسا کہ دہریوں کا وطیرہ چلا آرہاہے۔ یعنی اپنا الو سیدھا کرنا!
آصف اثر ماشاءاللہ یہ تو وہی بات ہوئی کہ جدید بجلی کی فراہمی کیلئے الیکٹرون کے نظریہ کو گھڑا گیا یا ایٹم بم ایجاد کرنے کیلئے جوہری قوتوں کو گھڑا گیا۔ یہ وہی اسلامی بند دماغ ہیں جنکی طرف مذکورہ مضمون اشارہ کر رہا ہے۔ آپ پر پورا اترا۔