گوگل ٹرانسلیٹ سے آپ کی خاطر کچھ گالیوں کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ ایک آدھ تو وہی اردو والی نکلیں۔ اب آپ حکم کریں گالیاں یہیں دینی ہیں یا نئی لڑی میں یا مکالمے میں یا جہاں جہاں آپ محفل پر دکھائی دیں؟
شاید آپ کی مادری زبان فارسی ہے آغا صاحب۔ ہمارے اردو کے ادیب ہیں مشتاق احمد یوسفی، وہ فرماتے ہیں کہ گنتی، گالی اور گندا لطیفہ اپنی مادری زبان ہی میں اچھا لگتا ہے۔
درست فرمایا آپ نے۔
میری مادری زبان اردو ہی ہے، لیکن فارسی اب تو فقط آبائی زبان ہی رہ گئی ہے جسے بدقسمتی سے خاندان کے چند افراد کے علاوہ،جن میں یہ خاکسار بھی شامل ہے، کوئی نہیں جانتا۔ البتہ فارسی سے محبت اپنے آبائی زبان ہونے کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس کی سحر بیانی، خوبصورتی اور مسلم تہذیب پر گراں قدر احسانات کی بدولت اسے عزیز رکھتا ہوں۔
دراصل میں نے علامہ زمخشری کے قول کو تھوڑا ردوبدل کرکے اپنے بارے میں پیش کیا ہے۔انہیں عربی زبان سے اتنی محبت تھی وہ کہتے تھے کہ مجھے کوئی عربی میں دشنام دے یہ مجھے زیادہ عزیز ہے بہ نسبت اس کے کہ فارسی میں میری تعریف کی جائے ۔
بہرحال ہر کسی کا اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے۔میں نے فقط اپنے ذوق کی ترجمانی کی ہے، فارسی سے محبت کا اظہار کیا ہے،اردو پر تنقید نہیں۔
جب ایک زبان کی خوبی بیان کرتے ہوئے اور دیگر کی برائی بیان کرتے ہوئے کسی دوسری زبان کا نام آ جائے گا تو ظاہر ہے کہ دوسری زبان والوں کو بُرا لگے گا۔ علامہ زمخشری کا قول بھی فارسی والوںکے لیے جارحانہ ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ مزید تبدیلی کرتے ہوئے یہ لکھتے کہ "مجھے فارسی میںدی جانے والی گالی، کسی بھی دوسری زبان میں کی جانے والی تعریف سے زیادہ پسند ہے"۔