کیا سبب ہے جو یہ اشکِ رواں نکلتا ہے نمبر 188 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
کیا سبب ہے جو یہ اشکِ رواں نکلتا ہے
آنکھ سے ہو کر یہ رستہ کہاں نکلتا ہے

اشک بہنے کا سبب کُچھ نہ کُچھ رہا ہوگا
آگ لگتی ہے کہیں تب دُھواں نکلتا ہے

مرے جذبات کو نہ اپنی ہنسی میں ٹالو
کھیل ہے تیرے لئے دم یہاں نکلتا ہے

کیسے آتے ہیں زمیں پر یہ فلک کے باسی
کوئی در ہے جو سرِ آسماں نکلتا ہے

اپنے کِردار کو پاکی سے مزین رکھو
داغ لگ جائے تو پھر کب نِشاں نکلتا ہے

ظُلم کے سامنے ڈٹ جاؤ اور چُپ نہ رہو
اپنے حق کے لئے سارا جہاں نکلتا ہے

دو کنارے ہیں سمندر کے دُنیا و عُقبٰی
جو یہاں ڈُوبتا ہے وہ وہاں نکلتا ہے

تیرگئ شب سے نہ گبھراؤ نا امید نہ ہو
دیکھ ہر روز صُبح ضوفشاں نکلتا ہے

ایسا لگتا ہے شارق یہ خفا ہے قسمت
نغمہ سمجھے جِسے ہم وہ فِغاں نکلتا ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
موجودہ شکل میں تو یہ بحر سے خارج ہے، یا نو ایجاد کردہ بحر میں ہے
مستعمل بحر میں مثلاً پہلا مصرع یوں ہو سکتا ہے
سبب ہے کیا جو یہ اشک رواں نکلتا ہے
 
Top