ظفری
لائبریرین
میں براہ راست سوالات کی طرف آتا ہوں ۔ایک اور سوال کچھ دن سے ذہن میں آ رہا تھا یہاں پوچھنے کےلیے:
کچھ کونسیپٹس ہمارے ہاں غلط العام ہیں۔ ان کو شروع کرنے کی ذمہ داری کیا تاریخ میں کسی لکھاری یا حکمران یا کلچر وغیرہ کی ہے؟ مثلا:
1) انسان اشرف المخلوقات ہے۔
2) شوہر مجازی خدا ہے۔
3) عورت ناقص العقل ہے۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اگرچہ یہ یونیورسل ٹروتھس کی طرح معاشروں میں چل رہے ہیں مگر یہ کہا کس نے تھا اور اس نے ثابت کیسے کیا تھا؟ یا یہ اس لیے چل رہے ہیں کہ اس میں معاشرت کا مفاد ہے؟
انسان اشرف المخلوقات ہے ؟
یہ غلط تصور قرآن کی سورہ بنی اسرائیل آیت 70 سے اخذ کیا گیا ہے ۔ آیت کچھ اس طرح ہے کہ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ، وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ، وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا۔
ترجمہ: اور یقیناً ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی، اور انھیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا، اور انھیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا، اور انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی، واضح فضیلت۔
لفظ "کَثِيرٍ" (بہت سی مخلوقات) استعمال ہوا ہے، یعنی سب پر نہیں بلکہ بہت سی مخلوقات پر۔اس میں فرشتے، جنات، دیگر نوری مخلوقات کو کلیتاً شامل نہیں کیا گیا۔بلکہ یہ نسبت عام مخلوقات (جانور، نباتات، جمادات، وغیرہ) سے کی گئی ہے۔"تَفْضِيلًا" کا مطلب ہے "نمایاں فضیلت":یہ فضیلت جسمانی، علمی، اخلاقی، روحانی یا اختیار و ارادہ کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔"كَرَّمْنَا" (عزت بخشی) کا مفہوم ہے:انسان کو عقل، اختیار، ضمیر، زبان، شعور دیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کو ذمہ دار بھی بنایا گیا۔
اگر ہم انسان کے اشرف المخلوقات کی نسبت سے دیکھیں تو یہ اصطلاح قرآن کا براہِ راست لفظ نہیں ہے ۔ بلکہ "كرمنا" اور "فضلنا" جیسی آیات کی تفسیری توسیع ہے۔اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کو بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی گئی ہے۔لیکن قرآن نے یہ نہیں کہا کہ سب پر یا مطلق برتری ہے۔اشرف المخلوقات" کا جملہ قرآن کا نہیں، بلکہ بعد کی علمی و فلسفیانہ روایت کا دیا ہوا ہے۔خاص طور پر فلسفۂ انسان (مثلاً ابن عربی، اقبال) میں یہ تعبیر عام ہوئی۔
شوہر مجازی خدا ہے ۔ ؟
یہ غیر اسلامی اور ثقافتی تصور ہے، جس کی جڑیں برصغیر کی ہندو تہذیب میں ملتی ہیں۔ہندو دھرم میں عورت کو شوہر کی خدمت اور وفاداری میں اس قدر پابند تصور کیا جاتا تھا کہ وہ اسے پتی پرمیشور یعنی "شوہرکو خدا" کا درجہ دینے پر مجبور تھی ۔مسلم معاشروں میں یہ تصور مغلیہ دور اور ہندو مسلم سماجی اختلاط کے بعد در آیا۔کچھ ادبی روایات اور عوامی نثر میں اسے “شوہر مجازی خدا” کہہ کر عام کر دیا گیا۔
عورت ناقص العقل ہے ؟
یہ سوال بہت اہم ہے ۔ اور اس پر بہت سی ابحاث میں اسی محفل پر میں نے حصہ لیا ہے ۔ میری کئی تحاریر بھی مل جائیں گی ۔ شاید دس ، بارہ ، پندرہ سال پرانی ہوں ۔
اسلام میں عورت اور مرد کی گواہی کے حوالے سے سب سے زیادہ زیرِ بحث رہنے والی آیت سورۃ البقرہ کی آیت 282 ہے، جسے عام طور پر یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ "عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف ہے"۔ تاہم یہ تعبیر نہ صرف سیاقِ آیت سے ہٹ کر ہے، بلکہ قرآن کے مجموعی پیغام اور دیگر آیات سے بھی متصادم ہو جاتی ہے۔
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ... وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ" (سورۃ البقرہ: 282)
اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت کے لیے آپس میں قرض کا معاملہ طے کرو تو اسے لکھ لیا کرو... اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنا لو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں تاکہ اگر ایک (عورت) بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔"
یہ آیت "گواہی کی اہلیت" کا عمومی قانون بیان نہیں کر رہی، بلکہ قرض اور لین دین کے ایک مخصوص معاملے کی ہدایت ہے۔
عورت کی گواہی کو دو اس لیے کہا گیا ہے تاکہ ایک دوسری کی مددگار بن سکے۔ قرآن خود کہتا ہے: "أن تضل إحداهما فتذكر إحداهما الأخرى" یہ "عقل کی کمی" نہیں، بلکہ ایک احتیاطی تدبیر ہے۔
اس آیت کا سیاق اُس زمانے کے معاشرتی تناظر سے جڑا ہے جب عورت عمومی طور پر بازار، لین دین، اور معاہدوں سے الگ تھلگ تھی۔ لہٰذا ان معاملات میں ان کی عملی شمولیت کم تھی۔قرآن نے عورت کی شخصیت یا عقل پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ ایک سہارا اور احتیاط کا اصول بیان کیا۔
اسی حوالے سے قرآن کی دیگر آیتوں پر نظر ڈالیں ۔
سورہ نور (آیت 6-9): لعان کے معاملے میں عورت کی گواہی مرد کے برابر رکھی گئی، بلکہ اس سے مرد کی سزا ٹل سکتی ہے۔
سورہ مائدہ (آیت 106): سفر کے دوران وصیت کے گواہ دو افراد رکھے جائیں مرد یا دیگر۔ فقہا کے مطابق یہاں مرد و عورت کی تخصیص نہیں۔
اس آیت کا سیاق اُس زمانے کے معاشرتی تناظر سے جڑا ہے جب عورت عمومی طور پر بازار، لین دین، اور معاہدوں سے الگ تھلگ تھی۔ لہٰذا ان معاملات میں ان کی عملی شمولیت کم تھی۔
قرآن نے عورت کی شخصیت یا عقل پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ ایک سہارا اور احتیاط کا اصول بیان کیا ہے۔
آج کی عورت تعلیمی، معاشی، عدالتی، اور سائنسی میدانوں میں مکمل شرکت کر رہی ہے۔ اس لیے گواہی میں بھولنے کا عمومی مسئلہ نہ صرف ختم ہو چکا ہے بلکہ بعض اوقات عورت مرد سے زیادہ درست اور حساس مشاہدہ فراہم کرتی ہے۔ جدید عدالتی نظام میں گواہی ڈی این اے، فنگر پرنٹس، آڈیو ویڈیو، اور تحریری ثبوت پر بھی قائم ہوتی ہے ۔ صرف انسانی یادداشت پر منحصر نہیں ہو
سورۃ البقرہ کی آیت 282 عورت اور مرد کی گواہی میں تفریق نہیں بلکہ تعاون کو بیان کرتی ہے۔ اس کا اطلاق صرف قرض کے دستاویزی معاہدوں پر ہے۔ عورت کی گواہی کی اہلیت قرآن و سنت کے دیگر مقامات پر مکمل تسلیم شدہ ہے۔ یہ کہنا کہ عورت کی گواہی آدھی ہے، قرآن کی سیاقی ہدایت اور عدل و فطرت کے اصول سے انحراف ہے۔
آخری تدوین: