یاد رفتگاں

یونس

محفلین
20 مارچ 2022ء کو آج دو برس بیت گئے ۔۔۔ !

اس روز اس کی طبیعت بے چین سی ہو رہی تھی۔ عجیب افسردگی، اداسی اور خاموشی سی چھائی ہوئی تھی۔ میں بار بار اسے بہلانے کیلئے کوئی گفتگو چھیڑتا لیکن وہ ٹھیک سے توجہ نہیں دے پا رہی تھی۔ اس سے سبب پوچھا تو بھی یہی کہا کہ کچھ نہیں، بس ایسے ہی طبیعت ذرا بوجھل سی ہے۔

وہ اتوار کا دن تھا، اس کی بڑی بہن بہنوئی، چھوٹی بہن، بھابھی اور بھانجا اس سے ملنے آگئے تھے۔ سب اس کا پوچھ رہے تھے مگر وہ جیسے اپنے ہی خیالوں میں مگن، خاموش خاموش تھی۔ کبھی کسی جنت مکانی بزرگ کی کوئی بات یاد کرتی، چند لفظ بولتی اور پھر چپ ہو رہتی۔ میری بڑی بہن ان دنوں کافی علیل تھیں۔ یہ مہمانوں سے کہتی کہ میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔آپ لوگ جا کر آپا کا پتہ لو وہ ٹھیک نہیں رہتی ہیں،

میں نے اس سے اس کی اپنی طبیعت کے حوالے سے ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کی بات کی تو کہا کوئی بات نہیں، بس آج کا دن ہی ہے نا ۔۔۔ یہ جملہ میرے اندر جیسے چبھ سا گیا ۔۔۔ لیکن مہمانوں کے سامنے منہ سے کچھ بول نہیں سکا۔ اتنا بھی پوچھ نہیں سکا کہ اس "آج کے دن" کا آخر کیا مطلب ہوا ؟

مہمان اب کھانا وغیرہ کھا کر پھر اس کے پاس آ بیٹھے تھے اور کچھ باتیں کرنا چاہ رہے تھے لیکن ادھر وہی خاموشی ۔۔۔ اور پھر اس خاموشی کے ایک لمبے وقفے کے بعد اچانک اس کے منہ سے نکلا:

"آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں،
سامان سو برس کا، کل کی خبر نہیں !"

میرے جی میں آیا کہ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دوں، یہ آج کیسی باتیں کر رہی ہے۔ لیکن پھر وہی مہمانوں کا خیال ۔۔۔ !

میرے ذہن میں برسوں پرانا وہ لمحہ گھوم گیا جب، شادی سے بہت پہلے، میں ان کے ہاں گیا تو ایک تکیہ پر وہ ان ہی الفاظ کی کڑھائی کر رہی تھی۔ (اس زمانے میں لڑکیاں تکیوں پر دیگر پھول بوٹوں کے ساتھ روایتی طور پر اس قسم کے اشعار کاڑھا کرتی تھیں)

لیکن اب، اس وقت، اس شعر کا موقع محل کیا تھا ؟
ایک سادہ سی گھریلو عورت، جسے شعر و شاعری اور دیگر فنون لطیفہ سے کبھی کوئی سروکار نہیں رہا تھا، آج یہ الفاظ کیوں کر بول رہی تھی ؟
جتنا سوچا، اتنا ہی ذہن الجھتا چلا گیا ۔۔۔

اس ذہنی الجھن اور اس راز سے پردہ اس وقت ہی اٹھ سکا جب شام کے پانچ بج کر دس منٹ پر وہ ۔۔۔ میری رفیقۂ حیات ۔۔۔ میری تقریباً چالیس سالہ رفاقت چھوڑ کر اپنے ابدی گھر کیلئے رخصت ہو گئی !

انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اللھم اغفر لہا و ارحمہا و ادخلہا الجنت الفردوس۔

پورےگھر میں اس کی بہنوں، بھابھی اور میری بہو، بھانجی کی چیخیں، بیٹی کی سسکیاں، بیٹوں اور دیگر سب کی پر نم آنکھیں اور میری فقط اک خاموشی ۔۔۔ ہی رہ گئی ۔۔۔

پھر وہ عزیز و اقربا،
جو توڑ کر عہد وفا،

اک عالم مدہوش کی،
اک وادئ خاموش کی،

تنہائیوں میں کھو گئے،
گہرائیوں میں سو گئے،

ان کا تصور ناگہاں،
لیتا ہے دل میں چٹکیاں،

اور خوں رلاتا ہے مجھے،
بے کل بناتا ہے مجھے !

کہتے ہیں وقت بہت بڑا مرہم ہے، انسان آہستہ آہستہ، وقت کے ساتھ ساتھ، بہت کچھ بھول جاتا ہے۔ میرے خیال سے اس جملے میں "بہت کچھ" کے الفاظ بڑے اہم ہیں ۔۔۔ انسان، جس کے نام کے معانی ہی نسیان یا بھولنے والے کے ہیں، وہ بھی "سبھی کچھ" نہیں بھولتا ۔۔۔ ہاں بس "بہت کچھ" بھول جاتا ہے۔ کچھ لمحے، کچھ باتیں، کچھ یادیں بڑی کوششوں کے باوجود بھی بھلائی نہیں جا سکتیں، اور یہی انسان کی بے بسی کا ثبوت اور ابدی سچائی ہے۔

آئیے سب میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہو جائیں کہ:

اللہ تعالیٰ اس کی بشری لغزشوں کو معاف فرما کر اسے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
اس کی قبر کو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنا دے۔

یا اللہ ہمارے جو اپنے اس دنیا سے چلے کئے، ان کی نیکیوں میں اضافہ فرما‘ اور خامیوں سے درگزر فرما۔
ان کی بخشش فرما‘
ان پر رحم فرما‘
ان کی قبریں تا حد نظر کشادہ فرما‘
ان کو عذاب قبر سے محفوظ فرما‘
اور جنت الفردوس کے اعلیٰ ترین درجہ میں داخل فرما۔

ہمیں بھی انبیاء، صدیقین اور صالحین کے ہمراہ، ہمارے اپنوں ک
ے ساتھ اپنی جنتوں مین اکٹھا فرما۔

آمین یا رب العالمین
 

جاسمن

لائبریرین
آمین!
ثم آمین!
یا ربّ العالمین!
اللہ پاک آپ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین!
 

علی وقار

محفلین
20 مارچ 2022ء کو آج دو برس بیت گئے ۔۔۔ !

اس روز اس کی طبیعت بے چین سی ہو رہی تھی۔ عجیب افسردگی، اداسی اور خاموشی سی چھائی ہوئی تھی۔ میں بار بار اسے بہلانے کیلئے کوئی گفتگو چھیڑتا لیکن وہ ٹھیک سے توجہ نہیں دے پا رہی تھی۔ اس سے سبب پوچھا تو بھی یہی کہا کہ کچھ نہیں، بس ایسے ہی طبیعت ذرا بوجھل سی ہے۔

وہ اتوار کا دن تھا، اس کی بڑی بہن بہنوئی، چھوٹی بہن، بھابھی اور بھانجا اس سے ملنے آگئے تھے۔ سب اس کا پوچھ رہے تھے مگر وہ جیسے اپنے ہی خیالوں میں مگن، خاموش خاموش تھی۔ کبھی کسی جنت مکانی بزرگ کی کوئی بات یاد کرتی، چند لفظ بولتی اور پھر چپ ہو رہتی۔ میری بڑی بہن ان دنوں کافی علیل تھیں۔ یہ مہمانوں سے کہتی کہ میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔آپ لوگ جا کر آپا کا پتہ لو وہ ٹھیک نہیں رہتی ہیں،

میں نے اس سے اس کی اپنی طبیعت کے حوالے سے ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کی بات کی تو کہا کوئی بات نہیں، بس آج کا دن ہی ہے نا ۔۔۔ یہ جملہ میرے اندر جیسے چبھ سا گیا ۔۔۔ لیکن مہمانوں کے سامنے منہ سے کچھ بول نہیں سکا۔ اتنا بھی پوچھ نہیں سکا کہ اس "آج کے دن" کا آخر کیا مطلب ہوا ؟

مہمان اب کھانا وغیرہ کھا کر پھر اس کے پاس آ بیٹھے تھے اور کچھ باتیں کرنا چاہ رہے تھے لیکن ادھر وہی خاموشی ۔۔۔ اور پھر اس خاموشی کے ایک لمبے وقفے کے بعد اچانک اس کے منہ سے نکلا:

"آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں،
سامان سو برس کا، کل کی خبر نہیں !"

میرے جی میں آیا کہ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دوں، یہ آج کیسی باتیں کر رہی ہے۔ لیکن پھر وہی مہمانوں کا خیال ۔۔۔ !

میرے ذہن میں برسوں پرانا وہ لمحہ گھوم گیا جب، شادی سے بہت پہلے، میں ان کے ہاں گیا تو ایک تکیہ پر وہ ان ہی الفاظ کی کڑھائی کر رہی تھی۔ (اس زمانے میں لڑکیاں تکیوں پر دیگر پھول بوٹوں کے ساتھ روایتی طور پر اس قسم کے اشعار کاڑھا کرتی تھیں)

لیکن اب، اس وقت، اس شعر کا موقع محل کیا تھا ؟
ایک سادہ سی گھریلو عورت، جسے شعر و شاعری اور دیگر فنون لطیفہ سے کبھی کوئی سروکار نہیں رہا تھا، آج یہ الفاظ کیوں کر بول رہی تھی ؟
جتنا سوچا، اتنا ہی ذہن الجھتا چلا گیا ۔۔۔

اس ذہنی الجھن اور اس راز سے پردہ اس وقت ہی اٹھ سکا جب شام کے پانچ بج کر دس منٹ پر وہ ۔۔۔ میری رفیقۂ حیات ۔۔۔ میری تقریباً چالیس سالہ رفاقت چھوڑ کر اپنے ابدی گھر کیلئے رخصت ہو گئی !

انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اللھم اغفر لہا و ارحمہا و ادخلہا الجنت الفردوس۔

پورےگھر میں اس کی بہنوں، بھابھی اور میری بہو، بھانجی کی چیخیں، بیٹی کی سسکیاں، بیٹوں اور دیگر سب کی پر نم آنکھیں اور میری فقط اک خاموشی ۔۔۔ ہی رہ گئی ۔۔۔

پھر وہ عزیز و اقربا،
جو توڑ کر عہد وفا،

اک عالم مدہوش کی،
اک وادئ خاموش کی،

تنہائیوں میں کھو گئے،
گہرائیوں میں سو گئے،

ان کا تصور ناگہاں،
لیتا ہے دل میں چٹکیاں،

اور خوں رلاتا ہے مجھے،
بے کل بناتا ہے مجھے !

کہتے ہیں وقت بہت بڑا مرہم ہے، انسان آہستہ آہستہ، وقت کے ساتھ ساتھ، بہت کچھ بھول جاتا ہے۔ میرے خیال سے اس جملے میں "بہت کچھ" کے الفاظ بڑے اہم ہیں ۔۔۔ انسان، جس کے نام کے معانی ہی نسیان یا بھولنے والے کے ہیں، وہ بھی "سبھی کچھ" نہیں بھولتا ۔۔۔ ہاں بس "بہت کچھ" بھول جاتا ہے۔ کچھ لمحے، کچھ باتیں، کچھ یادیں بڑی کوششوں کے باوجود بھی بھلائی نہیں جا سکتیں، اور یہی انسان کی بے بسی کا ثبوت اور ابدی سچائی ہے۔

آئیے سب میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہو جائیں کہ:

اللہ تعالیٰ اس کی بشری لغزشوں کو معاف فرما کر اسے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
اس کی قبر کو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنا دے۔

یا اللہ ہمارے جو اپنے اس دنیا سے چلے کئے، ان کی نیکیوں میں اضافہ فرما‘ اور خامیوں سے درگزر فرما۔
ان کی بخشش فرما‘
ان پر رحم فرما‘
ان کی قبریں تا حد نظر کشادہ فرما‘
ان کو عذاب قبر سے محفوظ فرما‘
اور جنت الفردوس کے اعلیٰ ترین درجہ میں داخل فرما۔

ہمیں بھی انبیاء، صدیقین اور صالحین کے ہمراہ، ہمارے اپنوں ک
ے ساتھ اپنی جنتوں مین اکٹھا فرما۔

آمین یا رب العالمین
اللہ پاک محترمہ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔

آپ نے نہایت خوب صورت الفاظ میں اپنی رفیقۂ حیات کا تذکرہ کیا۔صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ صدمہ آپ کے لیے کس قدر گہرا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

آمین۔ ثم آمین۔
 

عمار نقوی

محفلین
جس طرح آپ نے جذبات میں ڈوب کر یہ تحریر سپرد قلم کی ہے اس سے آپ کی مرحومہ سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔خدا مرحومہ کے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائے !
 
Top