برائے اصلاح

انیس جان

محفلین
یہ ایک اور تازہ تازہ غزل کا نزول ہوا ہے الف عین

نکال کر یہ صدف سے, لہو سے دھوئے گئے
اے پڑھنے والو! یہ موتی ہے یوں پروئے گئے

جنوں میں اور ترّقی ہوئی علاج کے بعد
ہمارے جسم پہ نشتر ہی یوں چھبوئے گئے

بس ایک رسم تھی جس کو کیا گیا پورا
ہماری لاش پہ کچھ لوگ آئے, روئے, گئے!

جہاں کو راس نہ آئی مجبت اور الفت
ہم ایسے لوگ سمندر میں ہی ڈبوئے گئے

متاعِ اشک کی عزّت کسی سے کی نہ گئی
گہر انیس یہیں پر یہ مجھ سے کھوئے گئے
 
مطلع میں کیونہ آپ نے جمع کا صیغہ استمال کیا ہے دھوئے گئے ، پروئے گئے اس لئے دوسرے مڈرع میں ہے کی بجائے ہیں آنا چاہئے ۔ یہ موتی ہیں یوں پروئے گئے
 

الف عین

لائبریرین
اس کا ٹیگ مجھے نہیں ملا

یہ ایک اور تازہ تازہ غزل کا نزول ہوا ہے الف عین

نکال کر یہ صدف سے, لہو سے دھوئے گئے
اے پڑھنے والو! یہ موتی ہے یوں پروئے گئے
پڑھنے والوں سے خطاب کی بات کیوں؟ شاید موتی سے مراد الفاظ ہیں۔ بہرحال کچھ عجز بیان لگتا ہے۔ اے کی ے کا اسقاط بھی گوارا نہیں
جنوں میں اور ترّقی ہوئی علاج کے بعد
ہمارے جسم پہ نشتر ہی یوں چھبوئے گئے
چھبوئے؟ شاید چھبوئے کی غلط املا ہے
یوں کی جگہ اس طرح لا سکیں تو بہتر ہو گا
بس ایک رسم تھی جس کو کیا گیا پورا
ہماری لاش پہ کچھ لوگ آئے, روئے, گئے!
درست
جہاں کو راس نہ آئی مجبت اور الفت
ہم ایسے لوگ سمندر میں ہی ڈبوئے گئے
سمندر میں ڈوبنے والا تو کوئی مشہور عاشق نہیں!
محبت اور الفت میں سے ایک لفظ ہی رکھیں
متاعِ اشک کی عزّت کسی سے کی نہ گئی
گہر انیس یہیں پر یہ مجھ سے کھوئے گئے
درست
 
Top