مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ شاد لکھنوی

فرخ منظور

لائبریرین
بحر ہزج مسدس مخذوف
مفاعیلن مفاعیلن فعلون
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
عام طور سے یہ مصرع میر تقی میر سے منسوب کیا جاتا ہے دراصل یہ مصرع شاد لکھنوی کا ہے۔ مکمل شعر کے ساتھ مکمل غزل حاضر خدمت ہے۔
وصالِ یار سے دونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

مکمل غزل
نہ پوچھو اے خضر حرص و ہوا کی
گھٹا کی زندگی، حسرت بڑھا کی

نہ کچھ شوخی چلی بادِ صبا کی
بگڑنے میں بھی زلف اس کی بنا کی

نہ پوچھو شوخیوں کی اس کے پا کی
حنا بھی ہاتھ بہتیرا مَلا کی

وہ مجنوں ہوں کھنچی جب کہربا سے
مری تصویر بھی تنکے چنا کی

مرے پر بھی رہی قسمت کی گردش
ہماری خاک کی بھِنگی پھرا کی

وہ سوتے بے حجابانہ رہے رات
نگاہِ شوق کام اپنا کیا کی

بنا کر خاک کا پتلہ کیا خاک
سوارت کی مری مٹی تو کیا کی

کہوں بربادیِ بنتِ عنب کیا
ہمیشہ مے پرستوں میں اُڑا کی

شکستہ خاطر ایسا ہوں مرے، پر
مری خاکِ لحد سے پھوٹ اُگا کی

چڑھا جب نشہ بنگِ خطِ سبز
جنابِ خضر سے گاڑھی چھنا کی

وصالِ یار سے دونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

وہ تر دامن ہوں میخواروں میں جس کی
ہوائے مے کشی باندھا سوا کی

(شادؔ لکھنوی)
بحوالہ دیوانِ شاد (سخنِ بے مثال)
 

یاسر شاہ

محفلین
سنی سنائی پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔
وہ تو ٹھیک ہے مگر مصرع مقبول ہے اور آپ کا پیش کردہ مصرع کھٹک رہا تھا تبھی عرض کیا:
ایک نظر دیکھ لیجیے گا

انٹرنیٹ پہ ایک جگہ یوں بھی درج ہے:
نہ کچھ تیزی چلی باد صبا کی

لیکن انٹرنیٹ کا لکھا سند نہیں۔


پہلے کہتے کہتے رک گیا تھا ایک بات کہ یہ طرز گالی کی رائج ہے اردو والوں میں جیسے بھوتنی کے /کی اور فلانی کے/ کی اور ڈھمکانی کے/کی وغیرہ وغیرہ۔مقصود یہ کہنا ہوتا ہے کہ فلاں کی اولاد وغیرہ ۔اب یہ جملے دیکھیں:

تیزی نہیں چلی باد صبا کی
شوخی نہیں چلی باد صبا کی
تیری نہیں چلی باد صبا کی!

تیسرا جملہ کھٹکتا ہے۔پہلے دو میں "کی" کی نسبت شوخی اور تیزی کی طرف ہے اور تیسرے میں ظاہری نسبت کوئی نہیں۔
 
Top