یہ ظلم ہے کہ مرے شہر کا جو قاتل ہے - جاوید اختر بیدی

شمشاد

لائبریرین
یہ ظلم ہے کہ مرے شہر کا جو قاتل ہے
ہزار جان سے وہ دوستی کے قابل ہے

مجھے ہی وار پہ لاتا ہے ہر زمانے میں
مجھے بتا یہ زمانہ کہاں کا عادل ہے

لہو اور آگ کا دریا ہے میرے رستے میں
کہ میری ذات ہی رستے میں میرے حائل ہے

صداقتوں سے نکھرتا ہے آدمی کا شعور
صداقتوں کو سمجھنا بہت ہی مشکل ہے

میں اپنی ذات میں ہوں بحر مجھ کو کیا پروا
امیر شہر جو دریا دلی پہ مائل ہے

مری زبان سے حق بات ہی نکلتی ہے
یہ اور بات کہ چھاتی پہ جبر کی سل ہے

ہے سر خوشی کی تمنا بہت مرے دل میں
وہ اس لئے کہ یہ دل ایک دکھ بھرا دل ہے

(جاوید اختر بیدی)​
 
Top