غاصبین کفار کا خیال تھا کہ ظالمان18 سالہ طویل جنگ کے بعد امن معاہدہ کو ترجیح دیں گے۔ لیکن دوران مذاکرات جہادی حملے کرنے پر غاصبین نے افغانستان سے واپسی کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔ ظالمان کا خیال تھا کہ غاصبین کی طرف سے امن معاہدہ کی کوششیں ان کی کمزوری کی علامت ہیں۔ حالانکہ وہ ان کو محض امن کا ایک موقع دے رہے تھے جو انہوں نے گنوا دیا۔
اب مزید جوتے کھانے کیلئے تیار رہیں۔
صدر ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات معطل کر دیے
ستمبر 08, 2019
صدر ڈونلڈ ٹرمپ(فائل فوٹو)
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ جاری امن مذاکرات ایک ایسے وقت میں معطل کرنے کا اعلان کیا ہے جب دوحہ امن مذاکرات کے نویں دور کے بعد حتمی امن معاہدے کی توقع کی جا رہی تھی۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کی منسوخی اور امن مذاکرات کی معطلی کا اعلان صدر ٹرمپ نے اپنی ٹوئٹ میں کیا۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کہ ان کی طالبان لیڈروں اور افغان صدر کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں حفیہ ملاقاتیں اتوار کے روز طے تھیں. جس کے لیے وہ الگ الگ ہفتے کی رات واشنگٹن پہنچ رہے تھے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی معطلی کا فیصلہ طالبان کی جانب سے کابل حملے کے بعد کیا گیا۔ جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے۔ طالبان نے اس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعوی کیا تھا۔
انہوں ںے کہا کہ طالبان اپنے جھوٹے مفاد کے لیے یہ کام کر رہے ہیں۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ طالبان جنگ بندی نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں بامقصد معاہدے کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔ وہ اپنی سودے بازی کی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ آخر طالبان اور کتنے عشروں تک لڑنا چاہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے اس اقدام پر تاحال طالبان کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد۔ (فائل فوٹو)
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ سے چند گھنٹے قبل ایک سینئر طالبان رہنما نے بتایا تھا کہ امن معاہدہ مکمل طور پر تیار ہے اور صرف اس پر دستخط ہونا باقی ہیں۔
طالبان کی جانب سے حالیہ دنوں میں افغان شہروں قندوز اور خمری میں تازہ حملے کی گئے تھے۔ اس کے علاوہ طالبان نے کابل میں دو خود کش حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔
حالیہ دنوں میں طالبان کی جانب سے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ (فائل فوٹو)
امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات حتمی مراحل میں داخل ہو چکے تھے۔ امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اس ضمن میں معاہدے کا مسودہ لے کر کابل بھی گئے تھے۔
یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ کسی بھی وقت امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پا جائے گا۔ جس کے بعد افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔
امن مذاکرات کے باوجود طالبان نے افغانستان میں امریکہ اور افغان فورسز کی تنصیبات پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔
افغانستان کا ردعمل
امریکی صدر کے اعلان کے بعد افغانستان کے صدر اشرف غنی کے دفتر کی جانب سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امن معاہدہ صرف اسی صورت میں پائیدار ہو سکتا ہے اگر طالبان پرتشدد کارروائیاں ترک کر افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کریں۔