خدا سے شکوہ نہیں ناخدا سے کیا ہوگا ٭ راحیلؔ فاروق

خدا سے شکوہ نہیں ناخدا سے کیا ہو گا
دعا سے کچھ نہ ہوا التجا سے کیا ہو گا

مریضِ شوق کو حاصل دوا سے کیا ہو گا
میں پوچھتا ہوں مسیحا شفا سے کیا ہو گا

گدا کا سوچ کہ مطلب صدا سے کیا ہو گا
غزل کا نکتہ سمجھ واہ وا سے کیا ہو گا

جو مر مٹے انھیں کیا جاودانیوں سے کام
فنا ہی ہو گئے جب تو بقا سے کیا ہو گا

زمانہ آدمی اور آدمی زمانہ ہے
پلک جھپکنے میں دیکھو گے کیا سے کیا ہو گا

جو عشق کرتے ہیں کمبخت ڈھیٹ ہوتے ہیں
وفا سے کام لیا کر جفا سے کیا ہو گا

ستم کیا تو ستمگر نے حق ادا نہ کیا
یہ کام غیر کا تھا آشنا سے کیا ہو گا

چمن میں کتنی خزاؤں کو اس نے روک لیا
قفس میں بلبلِ رنگیں نوا سے کیا ہو گا

حضور مَیں نہیں مجھ میں حضور آپ ہیں آپ
نہ پوچھیے کہ شکستِ انا سے کیا ہو گا

گزر چکا ہے نصیحت کا وقت اے ناصح
دیے نے آگ لگا دی ہوا سے کیا ہو گا

یہاں وفا سے کوئی معجزہ نہیں ہوتا
بھلا بتائیے ترکِ وفا سے کیا ہو گا

جنوں کے دشت وہی پائمال ہیں راحیلؔ
خرد کا ڈھونگ بڑا ارتقا سے کیا ہو گا

راحیلؔ فاروق
 
Top