کمبل کہانی

ایک روز بازار سے گزر رہا تھا کہ نظر ایک غریب الدیار تاجر پر پڑی جو صدا لگاتا تھا کمبل لے لو ، نرم گرم کمبل لے لو۔

ھم وقت پاٹنے کو رُکے اور معائنہ اس یک پارچہ کا کیا جسے وہ ساہوکار کمبل بتلاتا تھا۔ سوچا کہ اُمراء کی نگاہِ التفات سے نہ صرف مال کی قدر بڑھتی ہے بلکہ دل غریب تاجر کا بھی بہل جاتا ہے۔

یونہی پوچھ لیا کہ کیا مانگتے ہو ؟

وہ جھٹ بولا چھ صد روپے۔

حیرت سے اس روپیلی دھوپ سے کمبل کو دیکھا جو سرسوں کے پھولے کھیت کی طرح فٹ پاتھ پہ بے تحاشا پھیلا ہوا تھا۔

پھر شیخانہ جاہ و جلال سے دریافت کیا
" ھل ھذہ جدید ؟ ؟

وہ ہاتھ جوڑ کر بولا صاحب جدید ہوتا تو فٹ پاتھ پہ بکتا ؟ ہرچند کہ دوبئی کی سوغات ہے اور مہر اس پر جاپان کی ہے مگر ہے قدیم۔ نیا ہوتا تو چار ہزار سے اوپر کا تھا۔ کسی قطری شیخ کے ہاں برسوں کا اوڑھنا رہا۔ پھر کراچی آیا تو کسی میمن سیٹھ کے ہاں مقیم رہا۔ تھک ہار کر اس نے بیچا تو ہم اٹھا لائے۔ اب آپ جیسا گلفام آیا ہے قدر بڑھانے، چھ سو روپے نکالئے۔

غرض کہ اس چرب زبان تاجر نے کمبل کو بٹیر پکڑنے والے جال کی طرح ہم پہ یوں تانا کہ پھنستے ہی بنی، گویا کہ :

اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ اسیر ہم ہوئے۔

اس سے پہلے کہ وہ گُرگِ باراں دیدہ امتداد زمانہ کی اس لٹی پٹی نشانی کو تھیلے میں ڈالتا ، ہم نے آگے بڑھ کے روکا کہ او عجلت پسند ٹھہر جا، کیوں فرشتہء موت بنتا ہے، پہلے مول تو طے کر لے۔ چھ صد میں تو ہم کبھو نہ خریدیں گے۔

وہ بولا کتنا دیتے ہو؟

ہم نے ایک شانِ بے نیازی سے جیب کو ٹٹولا اور کہا ہم تو 3 سو سے زیادہ نہ دیں گے۔

امیدِ واثق تھی کہ وہ بخیہ گر اتنا کم موُل سن کر کانوں کو ہاتھ لگائے گا اور چوکڑی مار کے کمبل پہ بیٹھ جائے گا کہ میاں سوچو بھی مت۔ مگر آہ شامتِ اعمال کہ اس ہوس پرست نے جھٹ شاپر نکالا اور کمبل لپیٹ کر ہمارے رُخ زیبا پہ یوں مارا گویا چوری کا مال ہو۔۔۔۔۔ !!!!

وائے رے قسمت۔ خود کو دو ہتھڑ پیٹیں یا گریہ کریں کہ نصف صد کیوں نہ بول دیا۔ اس سارق کو پچاس بولتے اور سو ڈیڑھ سو میں سردیاں گزر جاتیں۔
گویا کہ

بازار ہم گئے تھے ، اک چوٹ مول لائے۔

خیر خدا خدا کر کے رات کا انتظار کیا جیسے شب وصل کو عاشق تڑپتا ہے- کوئی دس بج گئے مگر سردی ندارد۔ بہت کوسنے دئے کہ پہلے تو موئی شام سے ہی لگنے لگتی تھی آج کون دل جلا مر گیا ہے کہ سردی بھی سوگ منانے چلی گئی۔

گیارہ بجے تک ٹھنڈ کا انتظار کیا پھر تنگ آ کر چھت والا پنکھا چلا دیا۔ پنکھے نے رفتار پکڑی تو جھاڑ و فانوس لہلہانے لگے۔ میز پر پڑا اخبار پھڑپھڑاتا ہوا میں اڑا اور یہ جا وہ جا۔ غرض کہ مکھی ، مچھر ، لال بیگ سب استغفار کرتے بھاگے ، تب جا کر کچھ ٹھنڈ محسوس ہوئی۔

بالاخر بڑی عقیدت سے عہد رفتہ کی اس نشانی کو کھولا، مولٹی فوم کے اشتہار والی عفیفہ کی طرح ہاتھ پھیر کر لطافت محسوس کی۔ پھر ریشم و کمخواب سمجھ کر جو اوڑھا تو دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔ ہائے نی جوانی ایں۔۔۔۔ کتھّے کتھّے دھکّے پئی کھانی ایں۔ جب دیس تھا ، موسم وصل تھا تو کمبل نہ تھا۔ آج کمبل میسر ہے مگر دیس نہیں۔ پھر فیض کو یاد کیا:

کبھی تو صُبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب ترے کاکُل سے مُشکبار چلے

سوچا اولڈ از گولڈ۔ قدیم ہے مگر بے کار نہیں۔ کیا ہوا جو شیخ المتوکل اور میمن المتمول نے کچھ روز اوڑھ لیا۔ امراء کا اوڑھنا امراء ہی اوڑھتے ہیں۔ اس غافل تاجر پر ہزار ہا تُف کیا جس نے اس مایہء گراں قدر کو یوں سر بازار رسواء کر رکھا تھا۔

ابھی آنکھ ہی لگی تھی کہ کندھے پہ کچھ سرسراہٹ محسوس ہوئی۔ پھر بائیں گھٹنے پر مزیدار قسم کی خارش ابھری۔ ابھی ادھر کو لپکے ہی تھے کہ مقام خارش بدل گیا۔ پچھلے علاقوں میں غضب کی شورش برپا ہوئی تو ایک ہاتھ ادھر بڑھایا۔ اسی دوران نامعلوم دشمن نے اگلے مورچوں پر حملہ کر دیا۔ یا الہی یہ کیا ماجراء ہے۔۔۔۔۔ نصف شبی کو اتنی شدید مصروفیت ؟ ہم تو دن کو بھی کام کو گناہ سمجھیں۔ اب یہ کیا آفت آن پڑی کہ کبھی بایاں پاؤں دائیں پہ رگڑیں، کبھی بائیں ہاتھ سے داہنا کان کھجائیں، کبھی دونوں ہاتھوں سے رانوں کو رگیدیں۔ غرض کہ۔۔۔۔۔

رات کاٹی خدا خدا کر کے

عین تہجد کے وقت بڑی ندامت سے دوزانوں ہو کے یوں بیٹھ گئے گویا پرانے عبادت گزار ہوں۔ پھر روشنی کو چراغ جلایا، کیا دیکھتے ہیں کہ پیلے کمبل پہ جگہ جگہ سرخ خون کے نشان ہیں، یہ موذی کھٹمل دستانے بھی نہیں پہنتا کہ بندہ کسی اور کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرتا پھرے۔

اس رذیل فطرت مخلوق پہ سخت غصّہ آیا۔ اگرچہ وہ میری زبان نہ سمجھتے تھے پھر بھی ہذیان میں خوب چلا کر کہا:

".اور رزیل -- او شیخ الشیطان -- ھل انت من قطر او کراتشی ؟" تم قطر سے ہو یا کراچی سے ؟

ھل انت یوتھی او پٹواری ؟

تم نئے پاکستان کی مخلوق ہو یا میاں صاحب کے زمانہ سے چل رہے ہو ؟

بہرحال میری یاوہ گوئی کا اتنا اثر ضرور ہوا کہ وہ کام چھوڑ کر بھاگے اور کمبل میں ہی کہیں روپوش ہو گئے۔

اب ڈھونڈ انہیں چراغ رخِ زیبا لے کر

میں نے کمبل کو کسی غلیظ پوٹلی کی طرح اندھا دھند لپیٹا۔ الماری سے سرف ایکسل کا دس روپے والا پیکٹ نکالا۔ پھر وڈی بالٹی میں بہت سا پانی ڈال کر اس فتنے کو غرق کر دیا۔ انج تے فیر انج سہی۔

تُف اس منحوس کمبل پر جس نے ہر شخص کو شیخ اور میمن سمجھ رکھا ہے۔ ذرا مزاجِ پٹوارانہ سے آگاہ ہو تو دیکھتے ہیں کیسے سربازار بکتا ہے۔ ان شاءاللہ دھو دھو کے استعمال کریں گے۔

۔۔۔۔۔
از ظفر اعوان
 
زبردست انتخاب چوہدری صاحب!
شکریہ جناب:)

خوب لکھاہے مصنف نے اور خوب زبان استعمال کی ہے۔
جی بالکل۔
ایک عام سی خریداری کو ایک کہنہ مشق لکھاری نے ایسی زبان میں بیان کر دیا کہ بے شمار جگہ بے ساختہ ہنسی آئی۔ :)
 
Top