ایک غزل

سعید سعدی

محفلین
آئے قرار دل کو نہیں احتمال تک
پوچھا نہیں ہے اس نے مرا حال چال تک

اس طور بے خبر وہ مرے حال سے ہوا
آتا نہیں ہے اس کو مرا اب خیال تک

یوں دل میں جا بجا وہ سراپا بکھر گیا
ازبر ہوئے ہیں اس کے مجھے خدوخال تک

خطرات کوئے یار میں ہر اک قدم پہ ہیں
اس میں تو رہ گئے ہیں بڑے باکمال تک

ان دوستوں کے وار میں کیسے سہوں بھلا
اس رزم میں نہیں ہے مرے پاس ڈھال تک

چاہت سے عشق تک کی منازل عجیب ہیں
یہ اک سفر زوال سے ہے لا زوال تک

سعدی یہ دل ہوا ہے ترا چُور اس طرح
ملتی نہیں ہے جس کی جہاں میں مثال تک​
 
مدیر کی آخری تدوین:
بہت خوب سعید بھائی۔
آپ یہ غزلیں ناپ تول کر کہتے ہیں یعنی فعلولن فعالن وغیرہ سے ناپ کر یا اپنی طبع رواں سے کام لیتے ہوئے ہوئے وزن کا خیال رکھتے ہیں ؟
 

سعید سعدی

محفلین
بہت خوب سعید بھائی۔
آپ یہ غزلیں ناپ تول کر کہتے ہیں یعنی فعلولن فعالن وغیرہ سے ناپ کر یا اپنی طبع رواں سے کام لیتے ہوئے ہوئے وزن کا خیال رکھتے ہیں ؟
پذیرائی کا بہت شکریہ...
تھوڑی بہت علمِ عروض کی سوجھ بوجھ رکھتا ہوں..
 
Top