وہ حسین ابن علی، ناز علی ، جان علی

قربان

محفلین
لالہ صحرائے کربلا
وہ حسینؓ ابن ؓ، نازِ علی، جانِ علی
لالۂ پہلوئے زہرا، گوہرِ کانِ علی
وہ حسین ابنِ علی ، وہ مایۂ آلِ رسول
قبلۂ اہل ِ تمنا، کعبۂ آلِ رسول
وہ حسین ابن علی، وہ مرہمِ انسانیت
وہ نگہدارِ بقائے عالمِ انسانیت
وہ حسین ابنِ علی، وہ عشق کا سوزو سرور
ریشۂ جاں کی طراوت، آنکھ کی پتلی کا نور
آ! دکھاؤں میں تجھے، فرزندِ حیدر کی جھلک
آ! بتاؤں میں، پیمبر کا نواساکون تھا
کون تھا، جس نے دیا دنیا کو پیغامِ ثبات
جذب تھا، جس کی رگ و پے میں شعورِ صد حیات
پیاس تھی جس کی، سحابِ دجلۂ موجِ فرات
سیکڑوں صبحوں کا سرچشمہ تھی، جس ایک رات
ظلمتوں میں، جلوۂ شمعِ تمنا کون تھا
ہوچکی تھی شام، خوں گشتہ شفق کی چھاؤں میں
صبح سے پیاسا، کنارِ آبِ دریا کون تھا
جس نے ہنس کر چوم لی، صیقل شدہ خنجر کی دھار
جانتی ہے کربلا کی خاک، ایسا کون تھا
--------
وہ، لہو سے جس کے، دشتِ کربلا روشن ہوا
کربلا کیا، دوجہاں کا آئنا روشن ہوا
آفتابِ صبح پرورتھا وہ، اس کی ذات سے
مطلعِ احسان و ایثار و وفا روشن ہوا
دشمنوں سے گفتگو بھی، کتنی معصومانہ تھی
بدنما تھا جو ورق تاریخ کا روشن ہوا
اس کے دامن کی ہوا تھی، دامنِ بادِ مراد
تیز آندھی میں، چراغِ ارتقا روشن ہوا
پاؤں رکھتے ہی شہادت کی عزیمت گاہ میں
زندگی پر، زندگی کا مدعا روشن ہوا
کس ادا سے کرگیا، کالے سمندر کو عبُور
نیل کی تاریک موجوں میں، عصا روشن ہوا
دل شکستوں کو ملا، قربانیوں کا حوصلہ
دورتک، جہدو عمل کا سلسلہ روشن ہوا
کیا بجھاتا، اس کی مشعل کو، یزیدوں کا نفس
جس قدر روشن تھا وہ، اس سے سوا روشن ہوا
شخصیت جیسی ہو، ویسا ہی تخاطب چاہئے
میں نے لب کھولے، تو حرفِ ماجرا روشن ہوا
خیروبرکت کا وظیفہ ہے کہ اس کا ذکرِ خیر
مدتوں کے بعد، یہ دستِ دعا روشن ہوا
حجرۂ جاں، حجلۂ صدق و صفا روشن ہوا
-----------
تو سمجھتا ہے، حدیثِ ناتوانی ہے حسین
عشق و عزم و استقامت کی نشانی ہے حسین
مشرقِ صبر و رضا، کرنوں سے اسکی تابناک
صبح کا پرتو، شفق کی زرفشانی ہے حسین
بوستانِ کن فکاںِ اس کے لہو سے لالہ خیز
آشنائے رسم وراہِ باغبانی ہے حسین
آرہی ہے کربلا کی خاک سے پیہم صدا
شیوہ آموزِ حیاتِ جاودانی ہے حسین
صفحۂ ہستی پہ نقشِ غیرفانی ہے حسین
سننے والو! اک ذرا تابِ شنیدن چاہئے
درد کے شعلوں میں لپٹی اک کہانی ہے حسین
----------
ہوگئے اس حادثے کو، گوکہ چودو سو برس
آج تک سینہ ہے چھلنی اور دل صد پارہ ہے
جونفس سینے میں ہے، اک شمعِ ماتم خانہ ہے
آرہی ہے کربلا کی خاک سے پیہم صدا
زندۂ جاوید ہیں جولوگ، مرسکتے نہیں
سرسے لے کر پاؤں تک، اک نخل ماتم میں بھی ہوں
پھر بھی میں چپ ہوں، کہ مسلک ہے مرا، صبرِ حسین
یہ سلگتی دھوپ، لطفِ نمِ ابرِ حسین
زندگی کے کرب کا سوزِ شگفتہ ہے حسین
گلشنِ جاں کی بہارِ نود میدہ ہے حسین
رنگ کی دہلیز، خوشبو کا دریچہ ہے حسین
جس کو کہتے ہیں شہادت، ہے کلیدِ زندگی
کیوں بھلا روؤں، سمجھتا ہوں کہ زندہ ہیں حسین
سارے آنسو، چشمِ خوں بستہ میں رکھے ہیں جمع
باند رکھی ہیں سب آہیں، دامنِ انفاس میں
زخم جتنے ہین، چھپا رکھا ہے ان کو روح میں
اس توقع پر، کہ وہ جس دن، کہیں مل جائے گا
سارے آنسو، سارے شیون، ساری آہیں، سارے دکھ
ڈال دوں گا اس کے دامن میں، کہ اے جانِ فضاؔ
لے، یہ میرے پاس صدیوں سے امانت تھی تری​
 
Top