پتنگ بازی

نظام الدین

محفلین
ہم پتنگ بازی کو کھیل مانتے ہیں کیونکہ بقول یوسفی ’’جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا، کھیل کھیل نہیں رہتا، کام بن جاتا ہے۔‘‘ اور پتنگ بازی میں بوجھ دماغ کے بجائے کوٹھے پر پڑتا ہے۔ ہم نے ایک پتنگ باز سے پوچھا۔

’’یہ پیچ لڑانے کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘

کہا۔ ’’کلائی مضبوط ہوتی ہے۔‘‘

پوچھا۔ ’’مضبوط کلائی کا فائدہ؟‘‘

کہا۔ ’’پیچ لڑانے میں آسانی ہوتی ہے۔‘‘

پیچ بھی سیاست کی طرح پرپیچ ہوتے ہیں مگر پتنگ بازی اور سیاست بازی میں یہ فرق ہے کہ ہمارے ہاں اول الذکر کے لئے ڈور اور آخر الذکر کے لئے بیک ڈور کی ضرورت پڑتی ہے۔ امریکا اور روس نے خلائی جہازوں کے ذریعے آسمان پر پہنچنے کی کوشش کی۔ ابھی وہ خدا تک پہنچنے کے لئے خلائی شٹل کا سہارا لینے کا منصوبہ بنارہے ہیں جبکہ ہم نے پتنگ بازی میں اتنی ترقی کرلی ہے کہ ہر سال بذریعہ ’’پتنگ‘‘ کئی لوگ خدا تک پہنچ جاتے ہیں۔

(ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ’’جوک در جوک‘‘ سے اقتباس)
 
2q39lxw.jpg

کویت میں تو پاکستان ایمبیسی کے تعاون سے اس کھیل کو فروغ دیا جا رہا ہے..
مجھے اور عدنان کو اگلے دن عمرہ کے لیے جانا تھا تو سوچا کہ آج اس کھیل میں حصہ لے لیتے ہیں اگلے دن اللہ کے حضور معافی کی درخواست ڈال دیں گے...
اگر پاکستان میں بھی پتنگ بازی کے لیے سال میں ایک دفعہ کوئی کھلی جگہ مخصوص کردی جائے اور پتنگ کی ڈور کی حد مقرر کردی جائے، تو اس کھیل کو، جو اب ہماری ثقافت کا حصہ بن چکا ہے، بچایا جاسکتا ہے،
 
Top