تازہ ترین

الف عین

لائبریرین
پہنچوں میں جہاں ، لگتا ہے منزل یہ نہیں ہے
یہ پاؤں کا چکر، یہ سفر کیوں نہیں جاتا
پہلے مصرع میں اگر "بھی" کی معنویت لائی جاتی تو شعر کی سطح کہیں بلند ہو جاتی۔
لگتا ہے یہ منزل نہیں، پہنچوں میں جہاں بھی

یہ ابر کا ٹکڑا تو گریزاں رہا مجھ سے
جاتا ہوں میں جس سمت، اُدھر کیوں نہیں جاتا
یہاں کچھ شتر گربہ کی سی صورت بن رہی ہے۔ یہاں ’’گریزاں رہا‘‘ کی بجائے ’’گریزاں ہے‘‘ کی معنویت درکار ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ’گریزاں رہا‘ سے آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ مطلب ’گریزاں رہا ہے‘ جو Present Continuous کے باعث زیادہ معنی خیز لگا مجھے۔
"دن گزرے گذر" کی بندش لگتا ہے جبراً لائی گئی ہے۔ اس پر توجہ فرمائیے گا، شعر کا تخیل اور مضمون عمدہ ہے اور کہیں زیادہ حسنِ ادا کا متقاضی ہے۔
مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس طرح حسن بیان بڑھ گیا ہے۔
 
لگتا ہے یہ منزل نہیں، پہنچوں میں جہاں بھی


میں سمجھتا ہوں کہ ’گریزاں رہا‘ سے آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ مطلب ’گریزاں رہا ہے‘ جو Present Continuous کے باعث زیادہ معنی خیز لگا مجھے۔

مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس طرح حسن بیان بڑھ گیا ہے۔

توجہ کے لئے ممنون ہوں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
محمداحمد بھائی سے متفق ہوں۔۔۔۔ آخر کار انتظار ختم ہوا


پہنچوں میں جہاں ، لگتا ہے منزل یہ نہیں ہے
یہ پاؤں کا چکر، یہ سفر کیوں نہیں جاتا

وہ ابر ہے پھر کیوں مجھے کرتا نہیں سیراب
سورج ہے تو دن گزرے گذر کیوں نہیں جاتا

یہ خونِ شہیداں ہے تو پھر لکھے گا تاریخ
ہر لاشہ مگر خوں سے سنور کیوں نہیں جاتا؟

واہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ
کمال
سپرب
فنٹاسٹک

خوبببببببببببببب
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
استاد محترم ماشاءاللہ بہت لاجواب اشعار ہیں. تنقید و تحسین کی ہم میں تاب نہیں.

کچھ فی البدیہہ اشعار ہمارے یہاں چل رہے سیاسی تناظر میں سرزد ہو گٰئے ہیں

وہ شخص وزارت سے اتر کیوں نہیں جاتا
رسیا‌ وہ حکومت کا ، گھر کیوں نہیں جاتا

دیکھی نہ سنی اتنی ملامت کبھی لوگو
غیرت ہے اگر اس میں تو مر کیوں نہیں جاتا

جو دھاندلی سے بن بیٹھا ہے اس ملک کا راجہ
جمہور کے غصے سے وہ ڈر کیوں نہیں جاتا

جاتے ہوے خالی تھے سکندر کے بھی گر ہاتھ
دوزخ یہ ترے پیٹ کا بھر کیوں نہیں جاتا

جو تیس برس سے ہے یہاں کرسی سے چپکا
وہ تیس دنوں کے لیے گھر کیوں نہیں جاتا


واہ
ہاہاہاہاہاہا
بہت خوب
کچھ زیادہ ہی حسبِ حال اشعار ہیں۔
لاجوان
 

عینی مروت

محفلین
یہ عشق جو سودا ہے، اتر کیوں نہیں جاتا
طوفانِ بلا ہے تو گزر کیوں نہیں جاتا

وہ ابر ہے پھر کیوں مجھے کرتا نہیں سیراب
سورج ہے تو دن گزرے گذر کیوں نہیں جاتا

یہ خونِ شہیداں ہے تو پھر لکھے گا تاریخ
ہر لاشہ مگر خوں سے سنور کیوں نہیں جاتا؟
سبحان اللہ۔۔۔بےحدددد عمدہ اشعار استاد محترم !
 

عظیم

محفلین
بابا یہ مرا حال سدهر کیوں نہیں جاتا
سودا ہے اگر عشق اتر کیوں نہیں جاتا

تنگ آ گئے محفل کے سبهی رکن بهی مجھ سے
ہر اک کی زباں پر ہے یہ مر کیوں نہیں جاتا

جتنا بهی لکهوں لگتا ہے لکها ہی نہیں کچھ
لکھ لکھ کے یہ دل میرا ہی بهر کیوں نہیں جاتا

بابا یہ سفر کیا ہے کہ مرتا ہے مسافر
بابا مرے پیروں کا سفر کیوں نہیں جاتا

دن رات جهگڑتا ہوں میں خود آپ سے اپنے
بابا میں خود اپنے سے مکر کیوں نہیں جاتا
 
آخری تدوین:
بابا یہ مرا حال سدهر کیوں نہیں جاتا
سودا ہے اگر عشق اتر کیوں نہیں جاتا

تنگ آ گئے محفل کے سبهی رکن بهی مجھ سے
ہر اک کی زباں پر ہے یہ مر کیوں نہیں جاتا

جتنا بهی لکهوں لگتا ہے لکها ہی نہیں کچھ
لکھ لکھ کے یہ دل میرا ہی بهر کیوں نہیں جاتا

بابا یہ سفر کیا ہے کہ مرتا ہے مسافر
بابا مرے پیروں کا سفر کیوں نہیں جاتا

دن رات جهگڑتا ہوں میں خود آپ سے اپنے
بابا میں خود اپنے سے مکر کیوں نہیں جاتا

ہمت ہے تو کر گزرئیے صاحب!
 
اسی زمین میں اس ناچیز نے بھی کچھ عرصہ قبل جسارت کی تھی اور جناب نے کمال شفقت سے تصحیح بھی فرماٰی تھی۔۔۔
گو اس میں ابھی بھی اصلاح کی گنجاٰیش نظر آتی ہے۔۔۔ :arrogant:۔۔ لیکن پھر میں اسےدوبارہ وقت نہیں دے پایا تھا ۔۔۔
-------------------------------------
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
جذبات کا دریا ہے ، اتر کیوں نہیں جاتا

کیا یوں ہی سدا بے حِس و خاموش رہوں گا
ہمدم بھی دعا گو ہے ، تَو مر کیوں نہیں جاتا

ہیں ایسی ہوائیں ہی سدا میرے مقابل
میں خاک اگر ہوں تو بکھر کیوں نہیں جاتا

تو آئینہ تمثال ہے گر ماہ جبیں ، پھر
ان عیب و ہنر سے ، میں سنور کیوں نہیں جاتا

مدّت سے ستم کوش نہیں یار تو ، لیکن
دل سے ، تری الفت کا اثر کیوں نہیں جاتا

مانا کے ہے وا تجھ پہ در صدغم و آلام
ہوں میں بھی اسی غم میں، نکھر کیوں نہیں جاتا

دونوں ہیں گرفتار اگر موج غم ہجر
دامن یہ ترا صبح کو تر کیوں نہیں جاتا

سید کاشف
 
Top