کیا زمانے تھے... کہ
نہ بدن کے صرف ھونے کا علم
نہ گمان کہ, ٹوٹ جانا کسے کہتے ھیں
بارشوں کے ہمراہ
دعاوں کی طرح اترے ھوے خواب
اگلے دن بھی
پلکوں میں اٹکے ھوے ملتے....
راہِ بےاختیار کی بے سرو سامانی میں
اس سے پہلے کہ کہیں ٹہر جائیں
نہ چاھتے ھوے یونہی مر جائیں
اس سے پہلے کہ.....
ناقبول دعاوں کے صدمے
جان پہ اور بھی بھاری گذرنے لگیں
آو اس ماحولِ بے ریا میں پھر سے
بند آنکھیں کیے
اک اور دعا کرتے ھیں
بھول کر جسم کے بے طرح جھمیلوں کو
راز روحوں کے فشاء کرتے ھیں
میں جب گھر چھوڑ کے نکلہ تھا نیے رستوں پر
جانتا تھا کہ .....
مہ و سال اب انہی رستوں پہ,
منزلوں کی خواہش میں
کچھ اس طرح سے گذار دوں گا
اردگرد رینگتے سایوں کو
روح کی روشنی ادھار دوں گا
عمریں چاھے لمبی, چاھے چھوٹی ھوں
پاوں پہ بندھے
رستوں کو
خود ھی آخر طے کرنا ھوتا ھے
یہ وجود اگر
نشانہء سنگِ باراںِِ شہر رھے
گذرتے لمحوں کے ھر موسم میں
اِس وجود کو
اپنی روح کے گرد لپیٹے
روز جینا روز مرنا ھوتا ھے
اک تعلق مساموں میں
اجالے کیطرح بہتا ھے
آنکھوں کی جنبشوں کی ساری حالتوں میں
دھڑکے کیطرح عیاں رھتا ھے
آدمی اک تصور میں, بیے حال سا
فراغت کے لمحوں پہ بچھے
وقتِ لطافت کے بستر پہ پڑا
خود کو خود سے چھپانے میں لگا رھتا ھے.